شام کے بعد کون؟؟؟

335

zc_GhazalaAzizامریکا اور روس نے اتوار 9 جولائی سے شام میں جنگ بندی پر اتفاق کیا ہے۔ یہ اتفاق کیوں اور کیسے ہوا؟؟ اس کا مقصد کیا ہے؟؟ یہ سوالات اپنی جگہ اہم ہیں لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ جب جنگ بندی پر دو ملکوں میں اتفاق کا اعلان ہوتا ہے تو وہ اس بات کا ثبوت ہوتا ہے کہ جو جنگ جاری تھی وہ دراصل ان ہی دو ملکوں کے درمیان تھی۔ جب ہی جنگ بندی ہوئی ہے اور اب اس کا باقاعدہ اعلان کیا گیا ہے۔ یہ پچھلے کافی عرصے سے کیے جانے والے سوال کہ شام میں ہونے والی لرزہ خیز جنگ کے پیچھے کون ہے؟ کا جواب ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ یہ جنگ بندی کیوں کی گئی؟ تو روسی وزیر خارجہ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’جرمنی میں ’’جی20‘‘ سربراہ اجلاس کے موقعے پر شام میں جنگ بندی کا فیصلہ روس کے صدر پیوٹن اور امریکا کے صدر ٹرمپ نے پہلی ملاقات میں کیا۔ امریکی فوج شام میں کس کے خلاف جنگ لڑ رہی ہے؟ اس کا جواب خود وائٹ ہائوس کے ترجمان دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’وہ شام میں داعش کے خلاف سرگرم اپنی فوج کے دفاع میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے‘‘۔ یعنی امریکی فوج شام میں داعش کے خلاف جنگ لڑ رہی ہے۔ جب کہ کہا جاتا رہا ہے کہ داعش کو بنانا اور مستحکم کرنا بھی اُس کا ہی کام ہے۔
امریکی فوج کے دفاع میں یہ بیان وائٹ ہائوس سے اُس وقت جاری کیا گیا جب امریکا اور اس کی اتحادی افواج کے جنگی طیاروں نے شام کی حکومت کا ایک جنگی طیارہ مار گرایا تھا۔ شام میں بشار حکومت کی پشت پر روس موجود ہے، امریکی ترجمان نے اپنے بیان کے آخر میں موجودہ کشیدگی کے باوجود روس سے رابطے قائم رہنے کا اعتراف کیا۔ اس کا کہنا تھا کہ شام میں امریکا اور روسی افواج کے درمیان رابطے قائم ہیں۔ جب جھوٹے الزامات کے ساتھ امریکا نے عراق میں صدام حسین کا تختہ اُلٹا تو اُس وقت عراق ایک متمدن، ترقی یافتہ، پرامن ملک تھا۔ امریکیوں نے عراق کو لوٹا، وہاں قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا۔ پھر ایک سُنی اکثریت کے ملک میں صدام کی سُنی حکومت کے مقابلے میں شیعوںکے کی حکومت قائم کی، یعنی نوری المالکی کی حکومت۔ اس سے قبل امریکا نے القاعدہ کا نام لے کر افغانستان اور عراق پر حملہ کیا وہاں اینٹ سے اینٹ بجائی، عراق میں اُس کی قائم کی ہوئی عراقی شیعہ حکومت نے بھی وہی کام کیا یعنی القاعدہ کا نام لے کر سُنی مسلمانوں پر ظلم۔
دوسری طرف داعش سامنے آئی۔ جس کے مظالم سے دنیا کا میڈیا بھر گیا، بہت آسانی اور سہولت سے داعش نے عراق کے کنوئوں پر قبضہ کرلیا۔ تیل کے کنوئوں سے اُس کی روزانہ کی آمدنی تیس لاکھ ڈالر سے زیادہ تھی۔ عراق میں جنگ کی آگ تیز کرنا تھی تا کہ خطے میں اپنی مرضی سے علاقائی حد بندی کرسکیں، لہٰذا تیزی سے داعش شہروں پر شہر فتح کرتی چلی گئی اور عراقی فوج ہر شہر میں جدید ترین اسلحہ چھوڑ کر پسپا ہوتی چلی گئی۔ یہ پسپائی چند گھنٹوں پر محیط ہوتی تھی، اربوں ڈالر کا اسلحہ عراقی فوج کی پسپائی کی صورت میں داعش کو گھنٹوں میں حاصل ہو جاتا۔ یہ عین اسکرپٹ کے مطابق تھا۔ داعش سُنیوں کا نام لے کر لڑ رہی تھی اور دوسری طرف عراقی حکومت نے ایران کے ساتھ اور سرپرستی میں شیعہ ملیشا منظم کی۔ دونوں طرف سے خوب قتل و غارت کی گئی۔ داعش کے مظالم اور دہشت تو میڈیا نے خوب رپورٹ کیے لیکن دوسری طرف کا حال نہیں بتایا گیا۔ پچھلے دنوں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے شیعہ ملیشائوں کے مظالم کی رپورٹ شائع کی، جس میں اس کی دہشت اور خوفناک مظالم بھی ویسے ہی ہیں اور اسی پیمانے کے بتائے گئے ہیں۔
ایک طویل عرصے داعش کو علاقوں پر قبضہ کرنے کی سہولت دینے کے بعد امریکی اتحاد نے بالآخر داعش کو محدود کیا ہے جب کہ اب شام کھنڈر بن چکا ہے۔ داعش کی وہ کون سی غلطی تھی جس نے اُس کو امریکی اتحاد کے لیے اب ناقابل قبول بنایا؟ زیادہ امکان ہے کہ وہ خود شام کے حصے بخرے کرنے کے لیے جرأت تھی۔ جس کے باعث وہی عراقی فوج داعش کو شکست دینے میں کامیاب ہورہی ہے جو پہلے ہتھیاروں کا ڈھیر چھوڑ کر پسپا ہورہی تھی اور وہی امریکی طیارے اسے بمباری کا نشانہ بنا رہے ہیں جو پہلے اُس سے گریز کررہے تھے۔ بشار حکومت اب بھی ایک اہم مہرے کے طور پر محفوظ رکھی جارہی ہے، کہ دوسری طرف روس اور پھر ایران علاقے میں اپنی بالادستی کے خواہاں ہیں۔
میدان جنگ میں داعش کے کمزور پڑنے کے بعد کسی دوسری طاقت کی تراش خراش کے لیے قطر سعودی عرب کا تنازع کھڑا کردیا گیا ہے۔ جنگ کا ایک نیا تھیٹر کسی نئے اسلامی ملک میں سجانے کے لیے تیاریاں ہیں۔ جرمنی نے امریکی صدر پر مشرق وسطیٰ میں تنازعات بھڑکانے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے خطے میں ہتھیاروں کی ایک نئی جنگ شروع ہوسکتی ہے۔ عرب ممالک خاص طور سے خلیجی ملکوں کو سوچ سمجھ کر فیصلے کرنے چاہئیں۔ کیا اس قدر تباہی کے بعد بھی عقل نہیں آرہی کہ وہ کسی نئی آفت کو دعوت دینے کے لیے آمادہ ہیں۔ مسلم اُمہ کو فرقہ وارانہ تعصب سے بچنے کی جتنی ضرورت آج ہے پہلے کبھی نہ تھی، بصورت دیگر آگ و خون کا لرزہ خیز تھیٹر ایک کے بعد ایک ملکوں میں سجایا جاتا رہے گا۔ جس کا ایندھن ایک عام مسلمان بھی بنے گا اور علمائے کرام کا طبقہ بھی۔ گھر کے آنگن کو بارود کی بو سے بچانا ہے تو ہر ایک کو اپنی اپنی جگہ جدوجہد کرنی ہوگی۔ اس سلسلے میں ایک عام مسلمان کی نسبت علمائے کرام پر بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے، کیا انہیں اس بات کا احساس ہے؟؟۔