یونیورسٹی روڈ‘ طارق روڈ سمیت دیگر سڑکوں کا ڈیزائن ورک فیل

219

کراچی (رپورٹ : محمد انور )پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری کے 10 ارب روپے کے کراچی پیکج کے تحت ازسرنو تعمیر کی جانے والی یونیورسٹی روڈ ،طارق روڈ ، حب ریورروڈ اور شاہراہ فیصل، قومی شاہراہ پر فلائی اوورسمیت 6 کاموں کی ازسر نوتعمیر و مرمت میں سنگین نوعیت کی بے قاعدگیاں اور کنسلٹنسی کے نقائص سامنے آنے لگے ہیں۔نمائندہ جسارت کی جانب سے کی گئی تحقیقات کے مطابق ان تمام کاموں کے لیے انجینئرنگ نامی فرم کی خدمات بحیثیت کنسلٹنٹ فرم بغیر ٹینڈرز اور دیگر قانونی کارروائی کے حاصل کی گئیں۔ اس مقصد کے تحت مبینہ طور پر مذکورہ فرم کو کنسلٹنسی ورک من مانے شرائط پر دیا گیا ۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ پورے پیکج کے کاموں کی کنسلٹنسی ایک ہی فرم کو قواعد و ضوابط کے خلاف دیکر سرکاری خزانے کو بھاری مالی نقصان سے دوچار کیا گیا ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ کنسٹنسی ورک درست طریقے سے نہیں کیے جانے کی وجہ سے یونیورسٹی روڈ کی تعمیر عالمی معیار تو کجا مقامی معیار کے مطابق بھی نہیں ہوئی جس کی وجہ سے حالیہ بارشوں میں سڑک پر پانی کا بہائو نہیں ہوسکا اور پانی سڑک پر جمع ہوگیا ۔ معلوم ہوا ہے کہ یونیورسٹی روڈ کے دونوں فیز کے کاموں پر برساتی پانی کی نکاسی کے لیے ڈرینج کو درست ڈیزائن نہیں کیا گیا۔ یہی صورتحال طارق روڈ اور پیکج کے تحت تعمیر کیجانے والے سٹرکوں پر سامنے آرہی ہے۔یادرہے کہ بلاول پیکج کے تمام کام حکومت سندھ کے اسپیشل ڈیولپمنٹ پروجیکٹ کے تحت اسپیشل سیکرٹری نیاز سومرو کی نگرانی میں کرائے گئے ہیں ۔ تاہم نیاز سومرو اپنے اس موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ تمام کام قواعد کے مطابق ہوئے ہیں۔تحقیقات کے مطابق کنٹریکٹر فرمز نے یونیورسٹی روڈ کی تعمیر کے دوران سڑک کے لیول کا خیال رکھا اور نہ ہی برساتی پانی کی نکاسی کے لیے ڈالی گئی لائنوں کی درست ڈیزائننگ کی ۔جس کی وجہ سے ایک ہی بارش کے بعد سڑک بیٹھ گئی تھی اور4 مقامات پر دوبارہ پیچ ورک کرایا گیا۔ماہرین کا کہنا ہے کہ سڑک کی ناقص تعمیرات کی اصل ذمے دارکنسلٹنٹ فرم ہے جو انجینئرنگ کے نام سے موسوم ہے۔جسارت کی تحقیقات کے مطابق مذکورہ کنسلٹنسی کی خدمات قواعد کے خلاف بغیر ٹینڈر کے حاصل کی گئی تھی جس پر تین کنٹریکٹر ایسوسی ایشنز نے عدالت سے بھی رجوع کرلیا تھا ۔اس کے باوجود نہ صرف کنسلٹنسی کا کام اسی فرم سے مکمل کرایاگیا بلکہ اسے کروڑوں روپے بھی اداکردیے گئے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ کنسلٹنٹ نے یونیورسٹی اور طارق روڈ کی تعمیر کے لیے بارش کے پانی کی نکاسی کو مدنظر نہیں رکھا ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ بلاول زرداری کے کراچی پیکج کے تحت بنائی جانے والی تمام6 سڑکوں کی تعمیرات کی کنسلٹنسی ایک ہی فرم کو دینے سے تمام کاموں میں نقائص سامنے آرہے ہیں، لیکن تاحال کنسلٹنٹ کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جارہی ہے۔یادرہے کہ یونیورسٹی روڈ کے ددنوں ٹریک کی تعمیر پر مجموعی طور پر 2ارب 13کروڑ 62لاکھ روپے خرچ کیے جارہے ہیں، حالانکہ پی سی ون کے تحت یہ منصوبہ ایک ارب 58 کروڑ روپے میں مکمل کیا جانا تھا۔ اس کام میں شامل سروس روڈ مکمل نہیں جاسکی ، اس طرح پروجیکٹ کی تکمیل سے قبل ہی ٹھیکا دی گئی کل لاگت میں مجموعی طور پر 45کروڑ روپے کا اضافہ کیے جانے کا بھی انکشاف ہوا ہے ۔ یونیورسٹی روڈ کے دونوں حصے جو کہ حسن اسکوائر تا نیپا چورنگی اور این ای ڈی یونیورسٹی تا صفورا چوک تک تھے پر کام کا آغازاس سال جنوری میں شروع کیا گیا تھا ۔ ان کاموں کے لیے پی سی ون میں لاگت کا تخمینہ مجموعی طور پر ایک ارب 58 کروڑ روپے لگایا گیا تھا ۔تاہم مبینہ طور پر ٹھیکیداروں اور میگا پروجیکٹ کے پی ڈی اور دیگر کی ملی بھگت سے دونوں پروجیکٹ کا ٹھیکا ایک ارب 71کروڑ روپے میں دیا گیا۔ اضافی رقوم کے عوض ٹھیکا دینے کے باوجود منصوبے کی لاگت میں مجموعی طور پر کاموں کے دوران نظر ثانی کی گئی اور پروجیکٹ ڈائریکٹر نے ٹھیکیداروں کی خواہش اور ان کے مطالبے پر دونوں کاموں کی مقررہ لاگت میں 45 کروڑ روپے کی منظوردے دی ۔