معز الدین، ایچ آر کے آر بلڈنگ
یہ بات زیادہ پرانی نہیں ہے جب امریکا اور یورپ ایک جھوٹے الزام کی پاداش میں سرزمین عراق میں بے پناہ ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہا تھا۔ اُسی زمانے میں ایک نیوز چینل کو نہایت پراسرار انداز میں ایک ویڈیو کیسٹ ملتی تھی۔ (دنیا کا بہترین مواصلاتی نظام سی آئی اے M-I-6 کی موجودگی میں آج تک یہ بات راز ہے کہ کون یہ کیسٹ کب، کہاں سے اور کیسے الجزیرہ تک پہنچاتا تھا) خیر یہ کیسٹ جو زیادہ تر اسامہ بن لادن کی ہوتی تھی یہ نیوز چینل اسے چلاتا جس کے متن کو بڑے اہتمام سے پورے مغرب کا پرنٹ میڈیا شہ سرخیوں کے ساتھ نمایاں طور پر شائع کرتا۔ پھر امریکا بہادر اس کیسٹ کے بیان کو بنیاد بنا کر اپنے ظلم وجور میں مزید اضافہ کردیتا تھا۔ نائن الیون کے واقعے کو بنیاد بنا کر امریکا نے افغانستان کے لاکھوں مسلمانوں کو تہہ تیغ کردیا۔ زرخیز زمین کو اپنی بمباری سے بنجر بنادیا، نہ کوئی کمیشن بنا، نہ انکوائری ہوئی، نہ اصل ملزم گرفتار ہوئے بلکہ الزام ایسے لوگوں پر دھر دیا جو دنیا میں موجود نہیں ہیں اور آج تک یہ معما لاینحلبنا ہوا ہے کہ نائن الیون کے واقعے والے دن ٹوئن ٹاورز پر ایک بھی یہودی اپنی جاب سے غیر حاضر کیوں تھا؟ جو کام قطر میں بیٹھ کر الجزیرہ کیا کرتا تھا جس طرح مسلمانوں پر مسلمان ملک میں بیٹھ کر استعمار کی بلاواسطہ یا بلواسطہ معاونت کرتا تھا۔ آج وہی کام احسن طریقے سے وطن عزیز کے چینل سرانجام دے رہے ہیں، ان کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ ان کی دی ہوئی خبروں سے کتنا فساد پھیلے گا یا پھیل سکتا ہے۔ سب سے پہلے اووریٹنگ اور رینکنگ کے چکر میں یہ قوم کا مورال گرا رہے ہیں۔ برے اور بُرائی کی تشہیر کررہے ہیں۔ پاناما کیس میں فریقین عدالت کے روبرو پیش ہوئے، جے آئی ٹی بنی، لیکن عدالت کے باہر پیشی بھگتانے کے بعد عمران خان، شیخ رشید، دانیال عزیز، حمزہ شہباز جس طرح گرجتے اور برستے رہے اور میڈیا ان کو بے پناہ کوریج دے کر معاشرے میں موجب فساد کا بنا۔ افسوس اس بات کا ہے کہ پاکستان کی معزز عدالت نے اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔ 10 جولائی کو جے آئی ٹی کو اپنی رپورٹ مکمل کرکے عدالت عظمیٰ کے حوالے کرنی تھی، حیرت اُس وقت ہوئی کہ اُسی رات کو تمام چینل پر جے آئی ٹی رپورٹ کے مندرجات دھڑلے کے ساتھ ڈسکس کیے جارہے تھے۔ لگتا تو یہی ہے کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ عدالت کے معزز جج صاحبان کے پڑھنے سے قبل ہی کچھ مقتدر حلقوں نے اپنے مذموم مقاصد کے لیے میڈیا میں پھیلایا۔ سوال یہ ہے کہ کیا عدالت کی ہر کارروائی کی میڈیا میں تشہیر کی جائے گی؟ راقم الحروف کے خیال میں عدلیہ کی یہ نئی ڈویلپمنٹ معزز عدالت اور خود معزز جج صاحبان کے حق میں زہر قاتل ہے۔ عدالت کی ہر کارروائی، عدالت کے فیصلے تک میڈیا اور عام آدمی کی رسائی سے دور ہونی چاہیے، بلکہ میں تو یہاں تک کہوں گا کہ عدالت کی کارروائی پر ہر قسم کے تجزیے اور تبصرے عدالتی فیصلے تک قانونی طور پر ساقط ہونے چاہئیں۔ معاشرے میں عدلیہ کا اب بھی وقار ہے اور عام لوگ آج بھی عدلیہ سے اُمید لگائے بیٹھے ہیں۔ ملک کی عسکری قیادت نے ماضی کے تجربات سے اپنی اصلاح کی۔ پاکستانی میڈیا افواج پاکستان پر بات کرنے سے پہلے سو بار سوچتا ہے اب پاکستانی میڈیا الجزیرہ اسٹائل میں عدلیہ کو مشق ستم بنائے ہوئے ہے۔ عدالت تحقیقات کرے کہ فیصلے سے قبل جے آئی ٹی کی رپورٹ کیسے اور کیونکر جاری ہوئی؟ اور یہ رپورٹ لیک کرنے والوں کے مقاصد کیا ہیں؟ اگر ایسا نہ کیا گیا تو کل جج صاحبان کے چیمبرزمیں کی گئی گفتگو بھی لیک ہوسکتی ہے۔ اللہ پاک اہل وطن کو شر سے محفوظ رکھے۔