برآمدات اضافے کیلئے کرنسی کی قدر کم کرنے کی حد مقرر کی جائے‘ میاں زاہد حسین

96

کراچی(اسٹاف رپورٹر)پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر ،بزنس مین پینل کے سیکرٹری جنرل اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ حکومت کی جانب سے مقامی کرنسی کی قدر کو مارکیٹ کی قوتوں کے رحم و کرم پر نہ چھوڑنے کے فیصلے کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔ برآمدات بڑھانے کے لیے روپے کی قدر کم کرنے کا مطالبہ بلا جواز ہے کیونکہ اس سے وقتی طور پر معمولی فائدہ ہوتا ہے جبکہ اس کا نقصان زیادہ ہے۔ برآمدات کے لیے کرنسی کی قدر کم کرنے کی کوئی حد ہونی چاہیے۔ میاں زاہد حسین نے ایک بیان میں کہا کہ کرنسی کی قدر کم کرنے سے درآمد کیا جانے والا خام مال بھی مہنگا ہو جاتا ہے جس سے کاروباری لاگت میں اضافہ ہوتا ہے ، درآمدات مہنگی ہو جاتی ہیں جبکہ شرح نمو پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔روپے کی قدر کم کرنے سے جہاں غیر ملکی قرضے اور ان پر ادا کیے جانے والا سود بڑھ جاتا ہے وہیں ترقیاتی منصوبوں کی لاگت میں بھی اضافہ ہوتا ہے جبکہ درآمدات جو برآمدات سے بہت زیادہ ہیں مہنگی ہو جاتی ہیں جس سے ملک بھر کے عوام متاثر ہوتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ برآمدات بڑھانے کے بہانے 1970 ء سے روپے کی قدر مسلسل کم کی جا رہی ہے جس سے پاکستان غیر ملکیوں کے لیے ایک منڈی بن کر رہ گیا ہے جبکہ تجارتی اور جاری حسابات کا خسارہ ایک مستقل مسئلہ بن گیا ہے جسے ترسیلات اور قرضوں کے ذریعے حل کیا جا رہا ہے۔ ہماری برآمدات بیس ارب سے کم جبکہ درآمدات تقریباً 53 ارب ڈالر ہیں جس نے معیشت کو خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ آئی ایم ایف اور دیگر اداروں وماہرین کی جانب سے روپے کی قدر میں مزید کمی کا مطالبہ کسی صورت میں نہ مانا جائے۔ حکومت نے پانچ جولائی کو کرنسی کی قدر کو مصنوعی طور پر کم کرنے کا نوٹس لے کر اسے ناکام بنایا۔ اور اب انھیں ایسے اقدامات کی ضرورت ہے کہ دوبارہ کوئی شخص انفرادی طور پر ایسا مہلک فیصلہ نہ کر سکے نہ اوپن مارکیٹ کے عناصرناجائز منافع کی خاطر ایسا کر سکیں۔ انھوں نے کہا کہ بینک ٹریژری بلز، انوسٹمنٹ بانڈز، کرنسی ٹریڈنگ اورا سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کرنے کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ پروڈکشن اور دیگر اہم شعبوں کو نظرانداز کیا جاتا ہے جس سے معاشی ترقی میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔