پاک افغان سرحدی کشیدگی اور آرمی چیف

116

حبیب الرحمن

پارا چنار سے کوئٹہ اور کراچی تک دہشت گردی کے واقعات نے ایک بار پھر سارے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ واقعات کی سنگینی کے پیش نظر پاک فوج کا اعلیٰ سطح کا سیکورٹی اجلاس طلب کیا گیا۔ اس موقعے پر بریفنگ دی گئی کہ دہشت گردی کے حالیہ واقعات افغان خفیہ ایجنسی این ڈی ایس اور بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کی ملی بھگت کا شاخسانہ ہیں۔ خیر اس میں تو کوئی راز کی بات نہیں۔ اس اجلاس کی سب سے اہم بات آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا اظہار خیال ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نائن الیون کے بعد سب سے زیادہ دہشت گردی کا سامنا پاکستان نے کیا اور اس مصیبت کے خاتمے کے لیے اپنی بساط سے بڑھ کر کردار ادا کیا مگر ہماری قربانیوں کا اعتراف کرنے کے بجائے ہم ہی سے ’’ڈومور‘‘ کا مطالبہ کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ دیگر اسٹیک ہولڈرز خصوصاً افغانستان دہشت گردی کے خلاف مزید اقدامات کرے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں نام لیے بغیر امریکا کا بھی ذکر کیا۔ یقینا پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف کئی آپریشن کرنے کے باوجود تاحال اس عفریت سے پوری طرح چھٹکارا نہیں مل سکا مگر زمینی حقائق یہ ہیں کہ افغانستان سے ایسی ’’نیکی‘‘ کی امید رکھنا خود کودھوکا دینے کے مترادف ہے۔
ہماری سرحدی صورت حال اس قدر پیچیدہ ہو چکی ہے کہ اب بھارت ہی نہیں چین کے سوا تمام پڑوسی ممالک ’’دانت پیستے‘‘ نظر آرہے ہیں۔ ان سطور میں پہلے بھی عرض کیا جا چکا ہے کہ ہر بدخواہ کو تکلیف ضرور ہے مگر سب کا مشترکہ ہدف ’’سی پیک‘‘ ہے۔ آج کل ملک کے اندر جو تماشا چل رہا ہے اس کا بنیادی مقصد بھی افراتفری پیدا کر کے پاکستان کو ترقی ہی نہیں بلکہ سا لمیت کی پٹڑی سے بھی اتارنا ہے۔ اس صورت حال کو بھانپتے ہوئے چینی وزیر خارجہ نے اسلام آباد آکر پاک افغان سرحدی اور سفارتی کشیدگی کم کرنے کے لیے دونوں ممالک کی قیادت کے مشترکہ اجلاس کی میزبانی کی پیشکش کی، اللہ اللہ! پاکستان پر یہ وقت بھی آنا تھا کہ افغانستان جیسے ملک سے معاملات طے کرانے کے لیے چین جیسی عالمی قوت کو کردار ادا کرنے کی پیشکش کرنا پڑی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایٹمی پاکستان کو اس سطح پر پہنچانے کی تمام تر ذمے داری انہی عناصر پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے خارجہ پالیسی سمیت ہر معاملے کو ہائی جیک کررکھا ہے۔ چین کے کھربوں ڈالر کے مفادات پاک چین اقتصادی راہ داری سے وابستہ ہیں اسی لیے چینی
وزیر خارجہ نے کھل کر کہا کہ پچھلے چند سال کے دوران پاکستان نے جو سیاسی استحکام حاصل کیا ہے اس سلسلے کو جاری رہنا چاہیے اور یہ کہ خطے میں کشیدگی معاشی ترقی کے لیے زہر قاتل ہے۔ چینی وزیر خارجہ نے اپنے دورے کے دوران آرمی چیف جنرل قمر باجوہ سے بھی ملاقات کی۔ انہوں نے واضح پیغام دیا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان بڑھتی سرحدی کشیدگی اور غلط فہمیاں جو صورت حال پیدا کررہی ہیں اس سے خطے میں جاری ترقی کے ایجنڈے کو بھی خطرات لاحق ہورہے ہیں۔ یہ بات کسی کو فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ چین پاکستان کا حقیقی دوست ضرور ہے مگر علاقائی اور عالمی سطح پر خودمختار ملک کی طرح اس کے اپنے بھی مفادات ہیں۔ ڈان لیکس والی رپورٹ میں سیکرٹری خارجہ اعزاز چودھری کے دورہ چین کی روداد انہی کی زبانی بیان کی گئی تھی۔ اعلیٰ ترین سول و فوجی قیادت کو واضح طور پر بتا دیا گیا کہ چینی حکومت مولانا مسعود اظہر سمیت بعض دیگر ایسے معاملات میں اب بھی اقوام متحدہ میں پاکستان کے موقف کی تائید کرنے پر تیار ہے مگر ساتھ ہی یہ پیغام بھی دیا گیا کہ آخر کب تک ایسا کیا جاتا رہے اور ایسا کرنے کی کوئی منطق ہے کیا؟ سو بہتر ہو گا کہ نئے حالات میں نئی اور تبدیل شدہ پالیسیاں اختیار کی جائیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ڈان لیکس کا سارا معاملہ سول ملٹری کشمکش کے روایتی کھیل کی نذر کر دیا گیا مگر اس میں سیکھنے کو بہت کچھ ہے۔
پاکستان میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے بعد یہ تو ثابت ہو گیا کہ خطرات کے بادل پورے ملک پر منڈلا رہے ہیں۔ ممتاز دفاعی مبصر کرنل (ر) غلام جیلانی خان نے اپنے ایک کالم میں یہ انکشاف کیا ہے کہ شمالی اور جنوبی وزیرستان میں دہشت گردوں نے پھر سے اپنے ٹھکانے بنالیے ہیں اور ماضی کی گھناؤنی سازشیں پھر سے بحال ہورہی ہیں، بھاری مقدار میں اسلحہ بھی لایا جارہا ہے۔ ایسے میں کیا سرحدوں پر خاردار باڑ لگانے سے یہ کام رک جائے گا۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ جن لوگوں کے خون میں ہی قتل و خونریزی بسی ہو وہ ان جنگلا بندیوں کی شاید ہی کوئی پروا کریں گے۔ پاک افغان سرحد پر صورت حال تیزی سے دھماکا خیز ہوتی جارہی ہے تو ایرانی بارڈر پر یک طرفہ طور پر گولہ باری کے اکا دکا واقعات کے بعد اب جوابی کارروائی کا آپشن بھی آ گیا ہے۔ پچھلے دنوں پاک فضائیہ کے جے ایف تھنڈر نے اپنی حدود میں گھس آنے والے ایرانی ڈرون کو تباہ کر کے ’’پیغام‘‘ بھیج دیا وہ تو اچھا ہوا کہ بعد میں کسی ایرانی عہدیدار نے دھمکی آمیز بیان دیا اورنہ ہی پاکستانی حکام نے مزید ردعمل کے ذریعے کشیدگی بڑھانے کی کوئی کوشش کی مگر آگے کیا ہو گا؟ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایران کے بارے میں امریکی پالیسی سچ مچ تبدیل ہورہی ہے، بااثر امریکی سینیٹر جان مکین نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ ایران میں نظام کی تبدیلی کا وقت آن پہنچا۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ جس اجلاس میں یہ گفتگو کی گئی اس میں سابق شاہ ایران کے صاحبزادے رضا شاہ پہلوی کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ اگر امریکا نے دباؤ بڑھانے کے لیے مختلف ممالک پر زور ڈالا تو معاملہ مزید پیچیدہ ہو جائے گا۔ سو بہتر پالیسی یہی ہے کہ ایران کے ساتھ ہر قسم کی سرحدی کشیدگی سے بچنے کی کوشش کی جائے۔ بھارتی فوج نے آخر کس کے بل بوتے پر چینی علاقوں میں دراندازی کی ہے اور مودی کے دورہ امریکا کے بعد پاکستان کے حوالے سے بھارتی پالیسی میں بدنیتی کا عنصر مزید نمایاں ہو کر سامنے آرہا ہے۔ حزب المجاہدین کے سپریم کمانڈر سید صلاح الدین کو عالمی دہشت گرد قرار دے کر ٹرمپ نے مودی کو جو تحفہ دیا ہے اس کی توقع شاید بھارت کا انتہا پسند ہندو وزیراعظم خود بھی نہیں کررہا تھا۔ قطر، سعودی عرب تنازع کے بعد پاکستان مشرق وسطیٰ میں بھی کوئی متحرک کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں، اسی حوالے سے ثالثی کے لیے کی جانے والی کوششوں کو سعودی حکومت کی سرد مہری کے سبب ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
اس میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے کہ پاکستان کا گھیراؤ سی پیک اور سسٹم کو لپیٹنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔
پورے منظر نامے کو پیش نظر رکھ کر سازش بھانپتے ہوئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے پارا چنار میں دہشت گردی کے واقعے کے بعد گمراہ کن مہم کا بروقت نوٹس لیا ہے۔ سوشل میڈیا پر چلائی جانے والی اس مہم کے ذریعے وارداتوں کو دانستہ طور پر فرقہ وارانہ منافرت کا رنگ دیا جا رہا ہے، مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علما سے ملاقات کے دوران آرمی چیف نے کہا کہ دشمن ہمیں دہشت گردی کے ذریعے تقسیم کرنے کی سازش کررہا ہے، اگرچہ اس کو منہ کی کھانا پڑی ہے پھر بھی ہم سب کو اس گمراہ کن مہم سے آگاہ رہنا چاہیے۔ آرمی چیف نے ایک سنگین سازش کو بے نقاب کر کے بہت صائب کام کیا ہے مگر یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ ملک میں ایک نہیں کئی ایک سازشیں چل رہی ہیں۔ اب تو یہ راز نہیں رہ گیا کہ سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کی منظم منصوبہ بندی کن عناصر نے کی اور ان کے آلہ کار کون ہیں؟ کیا ہی بہتر ہوتا کہ ہر ریاستی ادارے کا سربراہ اپنے اپنے ماتحتوں کو حکم دیتا کہ کسی بھی صورت حدود سے تجاوز نہ کیا جائے کیوںکہ اس پرانے کھیل کے سارے ضابطے اب شاید پہلے والے نہیں رہے۔ گیم کھیلنے والے بھی گیم کے نتائج سے خود کو محفوظ نہیں رکھ سکیں گے۔ اب تک تو یہی لگتا ہے کہ سرحدوں کے پار جاری سرگرمیوں پر نظر رکھنے اور جوابی حکمت عملی تیار کرنے کے بجائے اقتدار کے تمام اسٹیک ہولڈر آپس میں گتھم گتھا ہو کر ریاست کو تماشا بنانے کی جانب بڑھ رہے ہیں لیکن کسی بھی لمحے جوش پر ہوش غالب آ گیا تو ساری صورت حال معمول پر آنے میں دیر نہیں لگے گی۔