ہنگری کی مسلمان مہاجرین کیخلاف پھر ہرزہ سرائی

138

بوداپست (انٹرنیشنل ڈیسک) ہنگری کے وزیر اعظم وکٹر اوربان نے کہا ہے کہ یورپی یونین کے رہنما اور ہنگیرئن نژاد امریکی ارب پتی جورج سوروز ’نئے مخلوط مسلمان یورپ‘ کا خواب دیکھ رہے ہیں، لیکن ان کی حکومت ایسا نہیں ہونے دے گی۔ خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے ہنگری کے مہاجرین اور مسلمان مخالف وزیراعظم وکٹر اوربان کے حوالے سے بتایا ہے کہ قومی سرحدوں پر رکاوٹیں نصب کرنے کا مقصد یہی ہے کہ وہ یورپی یونین کے رہنماؤں اور سوروز کی کوششوں کا ناکام بنا دیں۔ ہفتے کے دن رومانیہ میں ایک ثقافتی فیسٹیول میں اپنے خطاب کے دوران انہوں نے کہا کہ وسطی یورپی ریاستیں مہاجرین اور تارکین وطن کی غیر قانونی آمد کو روکنے کی خاطر سرحدی رکاوٹوں کے حق میں ہیں۔ کٹر نظریات کے حامل وکٹر اوربان کے مطابق یورپی یونین اور ہنگیرئن نژاد امریکی ارب پتی جورج سوروز کی کوشش ہے کہ ہنگری میں بھی مسلمان مہاجرین کی تعداد زیادہ ہو جائے۔ تاہم انہوں نے اصرار کیا کہ وہ ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ اوربان کے بقول ان کے دور اقتدار میں ’مغربی یورپی خطے کے مسیحی ہنگری میں خود کو محفوظ تصور کرتے رہیں گے‘۔ وکٹر اوربان کا خیال ہے کہ یورپ میں مسلمان مہاجرین کی آمد کے سبب یورپ کی بنیادی مسیحی اقدار کو خطرہ ہے۔ اسی لیے انہوں نے اپنے ملک میں مہاجرین کی آمد کی سخت مخالفت جاری رکھی ہوئی ہے۔ ہفتے کے دن بھی انہوں نے دہرایا کہ وہ ایسے مہاجرین کی ہنگری میں آباد کاری نہیں ہونے دیں گے، جو ہنگری کی ثقافتی پہچان کو بدل کر رکھ سکتے ہیں۔ یورپی یونین کی طرح ہنگیرئن نژاد امریکی ارب پتی جورج سوروز بھی یورپ میں مہاجرین کی آباد کاری کے حق میں ہیں۔ حالیہ عرصے کے دوران اوربان کئی مرتبہ سوروز کو انہی خیالات کے باعث ہدف تنقید بنا چکے ہیں۔ مہاجرین کے حالیہ بحران کی وجہ سے یورپی ممالک کو کئی مسائل کا سامنا ہے، جب کہ یورپی رہنماؤں کا اصرار ہے کہ شورش زدہ اور جنگوں سے تباہ حال خطوں سے مہاجرت اختیار کر کے یورپی آنے والے لوگوں کو تمام یورپی ممالک میں یکساں طور پر آباد کیا جائے۔ تاہم ہنگری کے وزیراعظم وکٹر اوربان اس یورپی منصوبے کے خلاف ہیں۔ وہ ماضی میں بھی مسلمانوں اور مہاجرین سے متعلق سخت ترین بیانات دیتے آئے ہیں، جب کہ 2015ء میں مہاجرین کے بحران کے عروج کے دور میں ہنگری ہی وہ پہلا یورپی ملک تھا، جس نے اپنی سرحدیں تارکین وطن کے لیے بند کی تھیں۔ تب ہنگری نے سربیا کی سرحد پر ایک طویل دیوار قائم کر دی تھی، جہاں آج بھی پولیس اور فوج کی بڑی نفری تعینات ہے۔