سمیع اللہ ملک
پاکستان، روس اور چین کے د رمیان طاقتور اتحادی بننے کاسفرتیزی سے جاری ہے اور تینوں ممالک کے ہرسطح پررابطے مستحکم ہورہے ہیں۔پاکستان اور روس کے درمیان سردجنگ کا طویل اور تلخ دورانیہ برسوں پر محیط ہے لیکن اب جہاںچین کے ساتھ مل کرطاقتور اتحادی مثلث بننے جارہے ہیںوہاں خوشگوار باہمی تعلقات کے ذریعے خطے میں امن و امان لانے کے لیے سرجوڑکربیٹھے ہیں۔ بہرحال اب یہ طے ہوگیاہے کہ ماسکو اوراسلام آبادکے تعلقات اب مخالف سمت میں سفر نہیں کرسکتے اوریہ بھی واضح ہوگیاہے کہ امریکا کو اب افغانستان یا اس خطے میں امن سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ، اس لیے خطے میں امن و امان اور افغانستان کے مسائل کے حل کے لیے چین ،روس اور پاکستان کا اتحاد بہت ضروری ہے۔
افغان جنگ اور اس کی وجہ سے سرحدوں پر فروغ پانے والی دہشت گردی اور انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے ان ممالک کے درمیان دو فریقی اور سہ فریقی مذاکرات ہوچکے ہیں۔ پاکستان کوپچھلے کئی برسوں سے دہشت گردی کے حملوں کا سامنا رہا ہے جبکہ ماسکو بھی بم حملوں کی زد میں رہا ہے۔ پاکستان اور ماسکو میں دہشت گردی کی حالیہ لہر اس بات کا اشارہ کر رہی ہے کہ دہشت گردی ایک بار پھر ان دونوں ممالک کی سرحدوں پر دستک دے رہی ہے۔چین اپنے صوبے سنکیانگ میں ایک عرصے سے دہشت گردی کا سامنا کر رہا ہے لیکن اب سی پیک منصوبے کی کامیابی کے لیے پاکستان اور چین مل کرامن و امان کو یقینی بنانے کے لیے انتھک محنت کررہے ہیں تاکہ گوادر سے سنکیانگ تک سی پیک پرکام جاری رہ سکے۔
امریکا اپنے مفادات کے لیے افغان جنگ کو خطے میں پھیلانا چاہتا ہے خصوصا اسلام آباد، ماسکو اور بیجنگ کے درمیان بڑھتے ہوئے رابطے امریکا کے مفاد میں نہیں ہیں۔ سیاسی ماہرین کا یہ خیال ہے کہ افغانستان میں شام جیسی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش ہورہی ہے لیکن یہ تین ملکی اتحاد ایشیا کی صورتحال بھی تبدیل کر دے گا۔موجودہ حالات میں امریکا اور پاکستان کے تعلقات اب پہلے جیسے نہیں رہے اسی لیے ایک طرف روس اور پاکستان کے تعلقات مضبوط ہوتے جارہے ہیں تو دوسری طرف امریکانے بھارت کوگودمیں لے لیاہے۔ چین، روس اور پاکستان کے تعلقات نہ صرف پوری دنیا کے لیے حیران کن ہیں بلکہ کئی ممالک اس طاقتور اتحادی مثلث کا حصہ بننا چاہتے ہیں تاکہ مستقبل میں ملکوں کے درمیان معاشی، تجارتی اور فوجی تعلقات بہتر ہو سکیں۔
کچھ عرصہ پہلے ایران نے افغان جنگ کے سیاسی حل کے لیے روس،چین اور پاکستان کے اتحادی دائرے میں شامل ہونے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔یورپی یونین میں ترکی کی شمولیت کی امیدیں دم توڑ چکی ہیں اور ترکی اب اس اتحادی دائرہ میں شمولیت کا خواہاں ہے۔ افغانستان میں امن اور خطے میں استحکام کے لیے روس، پاکستان اور چین نے اپنی کوششوں کو تیز کر دیا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ اور اس کی انتظامیہ کو بھی احساس دلا دیا گیا ہے اگر افغان مسئلے کا پائیدار حل نہیں نکالا گیا تو یہ کام اب روس کرے گا۔ مودی کوخوش کرنے کے لیے ٹرمپ کے بیانات پر بھی جان مکین کی قیادت میں آنے والے اعلیٰ سطح کے امریکی وفدکواپنے شدید خدشات سے آگاہ کردیا ہے۔ اُدھرپاکستان نے نصرمیزائل کے کامیاب تجربے کے بعدبھارتی ’کولڈسٹارٹ‘ کو مکمل طورپرٹھنڈاکردیاہے اور خطے میں ہونے والی سازشوں کے جواب میںمزیدمیزائل تجربوں کے تسلسل کا بھی امکان ہے۔
روس، چین اور پاکستان کا تین ملکی بین الاقوامی اتحاد خطے میں امن و استحکام کے لیے کوشاں ہے اورحالیہ دنوں میں شائع ہونے والی رپورٹس کے مطابق ماسکو،اسلام آباد اور بیجنگ کے دفتر خارجہ اور فوج کے حکام نے افغان جنگ کا سیاسی حل تلاش کرنے کیے لیے بات چیت کی ہے۔ تین ملکی اتحادی مسلسل اس بات کا خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ واشنگٹن اب افغان جنگ کو ختم کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ افغان جنگ کے مسئلے پر روس، چین اور پاکستان کے درمیان کئی بار مذاکرات ہوچکے ہیں اور ان میں سے اکثر میں امریکا اور بھارت کو شریک نہیں کیا گیا، رواں ماہ کے آخر میں روس ایک بار پھر افغان مسئلے پر مذاکرات کرنا چاہ رہا ہے اور اس میں امریکا اور بھارت کے علاوہ دوسرے ممالک کی شرکت بھی متوقع ہے، ان مذاکرات کا مقصد افغان حکومت اور طالبان کے درمیان سمجھوتا کروانا ہے تاکہ افغانستان کی طویل جنگ کا خاتمہ ہو سکے۔
پاکستان، روس اور چین خطے میں پائیدار امن کا قیام چاہتے ہیں یہ تینوں ممالک صرف معاشی، سفارتی اور دفاعی تعلقات ہی بہتر بنانا نہیں چاہتے بلکہ یہ اپنی سرزمین اور اپنی سرحدوں سے انتہا پسندی اور دہشت گردی کا مکمل خاتمہ چاہتے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق داعش کے سیکڑوں جنگجو افغانستان میں داخل ہوچکے ہیں اور امریکی معاونت سے تورابوراکے اہم علاقوں پرداعش کے قبضے کے بعدآئندہ کے امریکی لائحہ عمل کے خطرناک ارادوں کابھی پتا چل گیاہے کہ اب اپنے مقاصدکے حصول کے لیے داعش کے ذریعے ان تینوں ممالک کے لیے بڑے مسائل پیداکرکے اپنی موجودگی کاجوازاورسی پیک کوناکام بنانے کی پوری کوشش کی جائے گی،یہی وجہ ہے کہ یہ تینوں اتحادی ممالک امن کا قیام یقینی بنانا چاہتے ہیں تاکہ سی پیک بھی محفوظ رہے اور اس کے ساتھ ایشیا میں اقتصادی اور کاروباری مواقع بھی پیدا ہوں۔ روس کے پاکستان اور چین سے بہترین تعلقات کے بعد اب یہ تینوں ممالک علاقائی منصوبوں پر مل کر بہتر انداز میں کام کر سکیں گے۔
روس اور پاکستان کے درمیان مفاہمت 2011ء میں اس وقت شروع ہوئی، جب امریکا نے پاکستان پر اسامہ بن لادن کو پناہ دینے کا الزام لگایا اور ایک خفیہ آپریشن میں اسے ہلاک کردیا اس کے ساتھ نیٹو افواج نے حملہ کر کے 24 پاکستانی فوجی جوانوں کو شہید کردیا، یہی دونوں واقعات پاک امریکا تعلقات میں بگاڑ کا سبب بنے ہیں۔آنے والے برسوں میں پاکستان کی پرخلوص کوششوں کے باوجود کچھ ممالک سے تعلقات بگڑ رہے ہیں اور رابطے ختم ہورہے ہیں، ایسے میں پاکستان نے اپنی خارجہ پالیسی کو تبدیل کیا اور اسے وسیع بنیادوں پر استوار کرتے ہوئے ماسکو سے اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کا فیصلہ کیا۔ 2014ء میں روس نے پاکستان پر سے اقتصادی پابندی اٹھالیں، روس کے اس مثبت اقدام نے دونوں ممالک کے درمیان دفاعی اور سیکورٹی شراکت داری کے دروازے کھول دیے ہیں اورستمبر میں پہلی بار ان 2 ریاستوں کے مابین مشترکہ فوجی مشقوں کا آغاز ہوا ہے۔
امریکا کے طالبان سے بات چیت نہ کرنے کے واضح مؤقف کے باوجود پاکستان، روس اور چین نے حالیہ ملاقاتوں میں افغان جنگ کے اختتام اور افغانستان میں امن و استحکام کے لیے کابل اور طالبان کے درمیان پرامن مذاکرات پر اتفاق کیا ہے۔ افغان جنگ کو ختم کرنے کے لیے خدا نخواستہ اغیار کی سازشوں کے نتیجے میں شام جیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے روس، پاکستان اور چین مل کر اس کا پرامن حل نکالیں گے، اگر تین ملکی اتحاد افغان جنگ کو پرامن طریقے سے ختم کرنے میں کامیاب ہوگیا تو یہ اتحادی مثلث طاقتور ترین اتحاد میں شمار کیا جائے گا اور یہ تینوں ممالک آئندہ دنیاکے امن کے نقیب کے طورپرپہچانے جائیں گے۔