عالمی دہشت گرد تنظیم داعش

230
حبیب الرحمن
پورا عالم اسلام دہشت گردی کی لپیٹ میں آیا ہوا ہے۔ ہر جانب مسلمانوں کا قتل عام جاری ہے اور اس قتل عام میں ’’خفیہ ہاتھ‘‘ جس کا بھی ہو صاف صاف نظر آرہا ہے وہ ’’مسلمانوں‘‘ کا ہی ہے۔ اس ہاتھ کے ہر علاقے اور ہر ملک میں اپنے الگ الگ نام ہیں اور ہر جانب سے جس نعرے کی گونج ہے وہ ’’اللہ اکبر‘‘ ہی کی ہے۔ نعروں کی اس گونج میں یہ بات سمجھنا بہت مشکل ہو گئی ہے کہ کون حق پر ہے اور کون باطل پر لیکن پھر بھی اس بات کی تہہ تک پہنچنا اور سمجھنا بے حد ضروری ہے ورنہ کچھ معلوم نہیں کہ کوئی بھی مسلمان کب کس کے فریب میں آجائے۔
اس میں کوئی شک نہیں بیرونی قوتیں اور خاص طور سے ’’امریکا‘‘ پوری امت مسلمہ کو ’’ٹریپ‘‘ کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے اور اپنی منصوبہ بندی کے مطابق وہ مسلمانوں کو مسلمانوں کے درمیان ہی الجھائے رکھنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ اگر وہ ایسا نہ کرتا تو معلوم نہیں ’’نائن الیون‘‘ جیسے کتنے ہزار حملے امریکا پر ہو چکے ہوتے۔ امریکی اور یورپی عوام اس قسم کے ماحول کے بالکل بھی عادی نہیں، اگر چند واقعات بھی ایسے ہوجاتے تو ان کے عوام پاگل ہوچکے ہوتے اور امریکا ٹوٹ کر بکھر چکا ہوتا اس لیے ’’اس‘‘ کے نقطۂ نظر سے مسلمانوں کو مسلمانوں کے اندر ہی محدود رکھنا بے حد ضروری ہو گیا تھا۔ چنانچہ کچھ ایسے گروہ بنانا ضروری ہو گئے تھے جو مسلمانوں میں افتراق پیدا کر سکیں اور اسلام اور مسلمانوں کے اصل چہرے کو مسخ کرکے رکھ دیں۔ اس قسم کے نمایاں گروہ میں سے ایک گروہ ’’داعش‘‘ بھی ہے جس کی حقیقت کچھ یوں ہے۔
۱۔ داعش کے معنی الفاظ کے اعتبار سے دولت اسلامیہ عراق و شام کے ہیں، یعنی اس گروہ کی ابتدا شام میں پیدا ہونے والے بحران کے بعد ہوئی کہ جہاں اس گروہ نے اپنے غیر ملکی آقاؤں امریکا اور اسرائیل کے ایما پر بھرپور خدمات انجام دیں لیکن امریکی مدد اور اسرائیلی حمایت ہونے کے باوجود بھی یہ گروہ شام میں موجود شامی حکومت کو نقصان پہنچانے میں ناکام رہا اس ناکامی کا انتقام لینے کا فیصلہ انہوں نے عراق میں خون خرابہ کرنے کے اعلان سے لیا اور پھر بالآخر عراق کے شمال میں جا پہنچے اور 12جون 2014 کو ایک ہولناک خون کی ہولی کھیلی گئی جس میں سیکڑوں عراقی شہریوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا۔ اس دن سے اس دہشت گرد گروہ کا نام لوگوں کی زبانوں پر آنا شروع ہو گیا ہے۔
۲: داعش یا امارت اسلامی ظاہری طور پر اسلامی احکام کے اجرا پر تاکید کرتا ہوا نظر آتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس دہشت گرد گروہ کے افکار و نظریات مکمل طور پر اسلام مخالف ہیں۔ شریعت کے نفاذ کا نعرہ اس لیے لگا رہے ہیں تاکہ دنیا والوں پر یہ ظاہر کریں کہ وہ ایک اسلامی گروہ ہیں۔ اس کا مقصد ایک طرف اسلام کو بدنام کرنا ہے اور دوسری طرف عالم اسلام میں مذہبی اور فرقہ وارانہ جنگ کی آگ بھڑکانا ہے۔
۳: داعش کا اصلی مقصد اسلام کے چہرے کو بگاڑ کر پیش کرنا ہے۔ ان کی جانب سے انتہائی درجے کی بے رحمی اور قساوت قلبی کے ساتھ بیگناہ انسانوں کا قتل عام کیا جانا، مذہبی اور مقدس مقامات اور انبیا اور اولیاکے مزارات مقدسہ کی تخریب اور اسی طرح کے دوسرے جرائم کا ارتکاب محض اس لیے انجام پا رہے ہیں کہ دنیا والوں کو یہ پیغام دیا جائے کہ جب مسلمان خود ہی اپنے بھائیوں کے گلے کاٹ رہے ہیں تو اسرائیل کو فلسطینی مسلمانوں کے قتل عام پر برا بھلا کیوں کہیں؟
۴: داعش اپنے جرائم، شدت پسندی اور غیر انسانی اقدامات کی باقاعدہ طور پر سوشل نیٹ ورک پر تشہیر کرتا ہے۔ مساجد، مقدس مقامات، انبیا اور اولیا کے مزارات کو تخریب کرنے کے بعد ان کی ویڈیو بنا کر فیس بک اور دوسری ویب سائٹوں پر شائع کی جاتی ہیں۔ آپ کے خیال میں اس کا کیا اثر پڑے گا؟ آیا کل جب اسرائیل کی غاصب صہیونی رجیم قبلہ اول مسجد اقصیٰ کو شہید کرے گی تو عوام یہی نہیں کہیں گے کہ کوئی بڑا مسئلہ رونما نہیں ہوا، خود مسلمان بھی تو اب تک مساجد اور انبیا کے مزاروں کو نابود کرتے آئے ہیں؟ لوگ اسرائیل کی جانب سے انجام پانے والی شدت پسندی اور غیر انسانی اقدامات کو بھول جائیں گے۔
۵: داعش خطے میں پائے جانے والے ممالک کی جغرافیائی حدود کو تبدیل کرنے کے درپے ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے اس نے فرقہ وارانہ تعصب اور مذہبی جنگ کی آگ بھڑکانے کا ہتھکنڈا استعمال کیا ہے۔ خطے میں قائم حکومتوں کو علوی، سنی اور دروزی حکومتوں میں تقسیم کیے جانے کا مقصد یہودی حکومت کے قیام جسے گریٹر اسرائیل کہا جاتا ہے کا جواز فراہم کرنا ہے۔ داعش خطے میں قومی اور مذہبی جنگ ایجاد کرنا چاہتی ہے اور اسے شیعہ سنی جنگ کا رنگ دینا چاہتی ہے۔ اس کا منطقی نتیجہ یہ نکلے گا کہ عالم اسلام میں مسئلہ فلسطین کو بھلا دیا جائے گا یا کم از کم مسلمانوں کی پہلی ترجیحات سے نکل جائے گا اور مسلمان ممالک دوسرے مسائل میں الجھ کر رہ جائیں گے۔
۶: خطے میں انجام پانے والے اکثر دہشت گردانہ حملوں میں داعش کے کردار کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر لبنان میں ایرانی سفارت خانے پر خودکش بم حملے میں داعش نے ایک فلسطینی خودکش بمبار کو استعمال کیا تھا۔ اس اقدام کا مقصد ہی شیعہ سنی جنگ کی آگ بھڑکانا تھا۔ ایسے اقدامات کا مقصد عالم اسلام میں انارکی پیدا کرنا ہے۔ جب داعش کے دہشت گرد فلسطینی پرچم کی توہین کرتے ہیں اور یہ اعلان کرتے ہیں کہ اس پرچم کو داعش کے پرچم سے تبدیل کر دینا چاہیے، تو اس کا کیا مطلب ہے؟ وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ یہ وہی مقصد ہے جو اسرائیل چاہتا ہے۔
۷: داعش کی تشکیل کے بعد اس کی جانب سے اسلام کے نام پر عراق اور شام میں انجام پانے والے غیر انسانی اور دہشت گردانہ اقدامات کا اصل مقصد ہی اسلام کے نورانی اور خوب صورت چہرے کو بگاڑ کر پیش کرنا ہے۔ داعش کی جانب سے نہتے عوام کے خلاف بہیمانہ ظلم و ستم انجام پانے کا بڑا مقصد اسرائیل کے چہرے کو سفید کرنا اور عالمی سطح پر اس کے چہرے پر لگے ظلم و درندگی کے لیبل کو ہٹانا ہے۔
داعش ہی کے دس ایسے معاملات سامنے آئے ہیں جن کے متعلق معلوم ہوکر ہر دلِ درد مند تڑپ اٹھتا ہے۔ زیر نظر اس مضمون میں اس کا ذکر یوں بھی ضروری ہے کہ ہر عام و خاص تک ان معلومات کو پہنچایا جائے تاکہ لوگ اپنے مستقبل کی کماحقہ‘ پیش بندی کر سکیں
۱۔ القاعدہ نے داعش کے ساتھ قطع تعلق کرلیا تاکہ اس کی شبیہ خراب نہ ہو۔ بن لادن کے مرنے کے بعد اس کے خفیہ ٹھکانے سے ایک طولانی خط ملا جس میں بن لادن نے شہری نظام اور معاشرتی زندگی سے متعلق مناسب منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے داعش کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
۲۔ ایک قتل کے جرم میں داعش لیڈر البغدادی چار سال امریکی فوج کی جیل میں رہا مگر 2009 میں اسے بصرہ کی بوکا جیل سے بے خطر مجرم بتا کر رہا کردیا گیا۔
نوٹ: اس کی رہائی اس بات بیّن ثبوت ہے کہ داعش کو امریکا کی آشیرباد حاصل ہے۔
۳۔ داعش دنیا کی امیر ترین دہشت گرد تنظیم ہے جس کی روزانہ آمدنی 30 لاکھ ڈالر ہوتی ہے۔ زیادہ تر اس کی آمدنی تیل کی اسمگلنگ سے ہوتی ہے۔
۴۔ داعش دہشت گردوں کی تعداد کچھ ہی مہینوں میں تین گنا بڑھ گئی۔ یعنی ان کی تعداد دس ہزار سے بڑھ کر اکتیس ہزار پانچ سو ہوگئی۔ داعش نے جب عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل پر حملہ کیا تو ان کی تعداد 800 تھی جب کہ ان کے مقابلے میں 3000 عراقی فوجی تھے۔
۵۔ امریکا نے داعش کے بہت سے افراد کو ٹریننگ دی ہے اور اس گروہ کے اسلحے بھی امریکا ہی کے ذریعے فراہم کیے جاتے ہیں۔
۶۔ تقریباً 2000 مغربی شہری داعش سے ملحق ہوئے ہیں۔ یہ افراد سماجی ویب سائٹس او آن لائن میگزین کی وجہ سے داعش سے منسلک ہوئے ہیں۔ یہ افراد داعش کے لیے بڑا سرمایہ شمار کیے جاتے ہیں کیونکہ وہ اپنے پاسپورٹس کی وجہ سے اپنے ملک لوٹ کر دہشت گردانہ اقدامات انجام دے سکتے ہیں۔
۷۔ داعش کی عورتیں اسیر بنائی گئی عراقی خواتین کو جسم فروشی پر مجبور کرتی ہیں۔ اور داعش اپنے افراد کو ان خواتین یہاں تک کہ 13 سال کی لڑکیوں کے ساتھ زیادتی کرنے پر انعام دیتی ہے۔
۸۔ داعش نے ماہ جولائی سے اکتوبر 2014 کے درمیان 55 ہزار عراقیوں کا قتل عام کیا اور اسی سال میں ان کے دہشت گردانہ اقدامات کی وجہ سے عراق کی نصف آبادی بے گھر ہوئی ہے۔
۹۔ داعش نے 2013 میں شہر حلب میں ایک تفریحی پروگرام ترتیب دیا۔ اس تفریحی پروگرام میں داعش کے اراکین نے النصرہ فرنٹ کے ساتھ رسی کھینچنے کا مقابلہ کیا۔
۱۰۔ داعش نے جب ایزدی قبائلیوں (عراقی اقلیت) پر حملہ کیا تو ان کی عورتوں اور بچوں کو زندہ ہی جلا دیا۔ انہوں نے جیلوں میں عیسائی بچوں کو اتنا قید رکھا کہ وہ بچے بدن کا پانی ختم ہونے کی وجہ سے جیل میں ہی دم توڑ گئے۔