سیکڑوں مہاجر مراکش سے اسپین میں داخل

279

میڈرڈ (انٹرنیشنل ڈیسک) مراکش سے ایک بار پھر سیکڑوں افریقی تارکین وطن اسپین میں داخل ہوگئے ہیں۔ خبررساں اداروں کے مطابق ہسپانوی ریڈ کراس نے بتایا ہے کہ خاردار تاروں کو عبور کرتے ہوئے مراکش سے شمالی افریقا میں واقع ہسپانوی علاقے سبتہ میں داخل ہونے والے 186 مہاجرین کو مدد فراہم کی گئی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ یہ افراد سبتہ کی سرحد پر دھاوا بول کر یورپ داخل ہونے میں کامیاب ہوئے۔ ریڈ کراس کے مطابق اس دوران شدید زخمی ہونے والے 4 افراد کو اسپتال میں بھی داخل کرایا گیا ہے۔ مہاجرین کی اتنی بڑی تعداد کا سبتہ میں یوں داخل ہونے کا یہ واقعہ غیرمعمولی قرار دیا جا رہا ہے، کیوں کہ عمومی طور پر وہاں سیکورٹی ہائی الرٹ ہوتی ہے۔ دوسری جانب جرمنی کے شہر اشٹٹ گارٹ کے نواح میں واقع مہاجرین اور بے گھر افراد کے ایک شیلٹر ہاؤس میں آتشزدگی کے نتیجے میں\2 افراد ہلاک جب کہ دیگر 3 شدید زخمی ہو گئے۔ پولیس نے پیر کے روز بتایا کہ ہلاک ہونے والے ایک 54 سالہ خاتون اور ایک 56 سالہ مرد ہیں، جو دھوئیں کے باعث دم گھٹنے سے ہلاک ہوئے۔ اس شیلٹر ہاؤس میں پناہ کے متلاشی افراد بھی سکونت پزیر تھے۔ ابتدائی تفتیش کے مطابق یہ آگ کچن سے بھڑکی۔ ادھر یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق ترکی سے غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے تارکین وطن کو واپس ترکی بھیجنے کا عمل پھر سے شروع کر دیا گیا ہے، ملک بدر ہونے والوں کی اکثریت کا تعلق پاکستان سے ہے۔ ترکی اوریورپی یونین کے مہاجرین سے متعلق طے شدہ اس معاہدے پر عمل گزشتہ برس اپریل کے مہینے سے شروع کر دیا گیا تھا، تاہم یونانی پولیس کے مطابق اس معاہدے کے تحت مہاجرین اور تارکین وطن کی ترکی واپسی کا عمل سست روی کا شکار رہا۔ یورپی یونین کی بیرونی سرحدوں کے نگران ادارے ’فرونٹیکس‘ کے مطابق یونین اور ترکی کے مابین طے شدہ اس معاہدے کے تحت گزشتہ برس اپریل سے لے کر اب تک صرف 1300 مہاجرین اور تارکین وطن کو یونان سے ملک بدر کر کے واپس ترکی بھیجا گیا ہے۔ یونانی پولیس بھی تارکین وطن کی یونان سے ترکی ملک بدری کے عمل میں سست رفتاری کا اعتراف کرتی ہے۔ تاہم یونانی پولیس کے مطابق یہ سلسلہ جاری ہے اور گزشتہ ہفتے ہی یونانی جزیرے لیسبوس سے 15 غیر قانونی تارکین وطن کو بحری جہاز میں سوار کر کے ترکی کے ساحی شہر ڈیکیلی میں قائم پناہ گزینوں کے مرکز بھیجا گیا ہے۔ یونان کے مطابق واپس ترکی بھیجے جانے والے غیر قانونی تارکین وطن اور مہاجرین میں سب سے زیادہ تعداد پاکستانی شہریوں کی ہے۔ پاکستانی تارکین وطن کے بعد افریقا سے تعلق رکھنے والے پناہ کے متلاشی افراد کو ملک بدر کر کے ترکی بھیجا گیا ہے۔ ایتھنز حکام کے مطابق ملک بدریوں کے اس عمل میں سست روی کی ایک بڑی وجہ یونان میں پناہ کی درخواستیں نمٹانے کا پیچیدہ نظام ہے۔ پناہ کی درخواستوں کا جائزہ لینے میں کئی مہینے لگ جاتے ہیں۔ اس وقت کئی یونانی جزیروں پر 15 ہزار سے زائد تارکین وطن موجود ہیں، جن کی پناہ کی درخواستوں کا ابتدائی جائزہ لینے کے بعد ہی ان کی ترکی ملک بدری کے بارے میں فیصلہ کیا جانا ہے۔ یونانی حکام اور پولیس کے مطابق ترکی ملک بدری کے علاوہ سیکڑوں تارکین وطن رضاکارانہ طور پر اپنے اپنے وطنوں کی جانب بھی لوٹ رہے ہیں۔ رضاکارانہ وطن واپسی کا پروگرام بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت (آئی او ایم) کے تعاون سے چلایا جا رہا ہے اور اس برس 1450 سے زائد تارکین وطن یونان سے رضاکارانہ طور پر واپس اپنے اپنے وطن لوٹ چکے ہیں۔