کشیدگی ختم ہونے کے بعد شاہ اردن کو فلسطین یاد آگیا

192

مقبوضہ بیت المقدس (انٹرنیشنل ڈیسک) مسجد اقصیٰ کی حالیہ کشیدگی ختم ہونے کے بعد اردن کے حکمران شاہ عبداللہ دوم مقبوضہ مغربی کنارے پہنچے، جہاں انہوں نے رام اللہ میں واقع فلسطینی انتظامیہ کے ہیڈکوارٹرز کا 5 برس بعد دورہ اور صدر محمود عباس سے ملاقات کی۔ تجزیہ کار اس دورے کو خطے میں جاری حالیہ کشیدگی کے تناظر میں انتہائی اہم قرار دے رہے ہیں۔ اردن کی حکومت اسرائیل کے زیرقبضہ مشرقی بیت المقدس میں واقع مسجد اقصیٰ اور مسلمانوں کے دیگر مقدس مقامات کی متولی ہے، جس نے گزشتہ ماہ اسرائیلی حکومت کی جانب سے مسجد کے داخلی دروازوں پر میٹل ڈیٹیکٹرز کی تنصیب پر احتجاج توکیا تھا، تاہم کوئی عملی اقدام کرنے سے ہمیشہ کی طرح دور ہی رہی۔ خبررساں اداروں کے مطابق شاہ عبداللہ دوم کا ہیلی کاپٹر پیر کے روز رام اللہ میں فلسطینی انتظامیہ کے ہیڈکوارٹرز کے احاطے میں اُترا، جہاں صدر محمود عباس اور دیگر اعلیٰ فلسطینی حکام نے ان کا پُرتپاک استقبال کیا۔ واضح رہے کہ مسجد اقصیٰ کی حالیہ کشیدگی کے بعد فلسطینی صدر نے اسرائیل کے ساتھ سیکورٹی امور پر تعاون معطل کردیا تھا اور مغربی کنارے کے تمام سرحدی راستوں کا کنٹرول اسرائیل کے ہاتھ میں ہونے کے باعث وہ مغربی کنارے سے باہر نکلنے سے قاصر ہیں۔ تاہم دوسری جانب عمان میں اسرائیلی سفارت خانے کے اندر صہیونی سیکورٹی اہل کار کے ہاتھوں 2 اردنی شہریوں کی شہادت کے بعد بہ ظاہر عمان حکومت اور اسرائیل میں کشیدگی کی ہے، تاہم اردن نے شاہِ اردن کے ہیلی کاپٹر کو مقبوضہ مغربی کنارے کی فضائی حدود میں داخل ہونے دیا۔ اردن کے شاہی دفتر کے مطابق محض ڈیڑھ گھنٹے جاری رہنے والے اس دورے میں دونوں رہنماؤں نے مسجد اقصیٰ کی حالیہ کشیدگی اور مقبوضہ علاقوں میں سیکورٹی کی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا۔ ادھر ذرائع ابلاغ میں کچھ عرصے سے خبریں آ رہی ہیں کہ مصری حکومت فلسطینی دھڑوں کے درمیان مصالحت کرانے کی کوششیں کررہی ہے، مگر فلسطینی انتظامیہ کے سربراہ محمود عباس کی جانب سے قومی مفاہمت کے لیے مصری کوششوں کو زیادہ اہمیت نہیں دی جا رہی ہے۔ اسی ضمن میں لندن سے شائع ہونے والے عربی روزنامہ ’الحیات‘ نے ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ مصری صدر عبدالفتاح سیسی نے ایک ماہ قبل فلسطینی صدر محمود عباس کے سامنے حماس کے ساتھ مفاہمت کے حوالے سے 6 نکاتی فارمولہ پیش کیا تھا۔ جنرل سیسی سے ملاقات کے دوران محمود عباس نے ان کی تجاویز سے اتفاق کیا اور کہا تھا کہ وہ قومی مفاہمت کا عمل آگے بڑھانے کے لیے انٹیلی جنس چیف ماجد فرج کو ذمے داری سونپیں گے، مگر بعد ازاں فلسطین واپسی پرمحمود عباس مصالحت کے حوالے سے مصر کے فوجی صدر کو کرائی گئی یقین دہانی سے پھر گئے۔ تاہم اب فلسطینی صدر ان 6 نکات میں سے 3 پر راضی ہوگئے ہیں۔ اخبار نے باوثوق فلسطینی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ جنرل سیسی نے ایک ماہ قبل محمود عباس کے دورہ قاہرہ کے دوران حماس کے ساتھ صلح کے لیے ثالثی کی پیشکش کی تھی۔ اس دوران مصالحت کے لیے 6 نکات پیش کیے تھے، جن میں غزہ کی پٹی انتظامی کمیٹی کو تحلیل کرکے تمام انتظامی اختیارات قومی حکومت کو سونپنا، غزہ کی پٹی کے خلاف فلسطینی انتظامیہ کے تمام انتقامی اقدامات کو ختم کرنا، حماس کے خلاف انتقامی پالیسی ترک کرنا، قومی اتفاق رائے سے طے پانے والی حکومت کو غزہ کی پٹی میں آزادانہ کام کی اجازت دینا، غزہ کی پٹی میں سرکاری ملازمین کے مسائل حل کرتے ہوئے حماس کے دور میں بھرتی ہونے والے ملازمین کو تسلیم کرنا، فلسطین میں عام انتخابات کے لیے ماحول سازگار بنانا اور تمام فریقین کا قاہرہ کی میزبانی میں آپس میں صلح کرنا شامل تھا۔ حماس نے ان تمام نکات سے کلی طور پر اتفاق کیا، مگر محمود عباس نے رام اللہ واپسی کے بعد مصری صدر کی پیشکش سے انحراف کرتے ہوئے قومی مصالحت کے لیے اپنی مرضی کی شرائط پیش کیں۔ اخبار نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ فلسطینی انٹیلی جنس چیف میجر جنرل ماجد فرج نے حماس کے ایک رہنما سے ٹیلیفون پر بات کی اور کہا کہ محمود عباس مصری صدر کے 6 نکات کے بجائے اپنے 3 نکات پر مفاہمت چاہتے ہیں۔ ان 3 نکات میں وہ شرائط شامل ہیں، جو محمود عباس پہلے بھی بار بار دہراتے رہے ہیں۔ ان میں غزہ کی انتظامی کمیٹی کو تحلیل کرنا، جون 2014ء کو تشکیل پانے والی قومی حکومت کو غزہ کی پٹی میں کام کی مکمل آزادی فراہم کرنا اور فلسطین میں پارلیمانی، صدارتی اور قومی کونسلوں کے انتخابات کی تیاری کے ساتھ ساتھ گزشتہ برس بیروت میں حماس اور فتح کے درمیان طے پائے مصالحتی معاہدے کی شرائط پرعمل کرنا شامل ہے۔ ماجد فرج نے کہا کہ صدر محمود عباس حماس سے اپنے خلاف جاری منفی پروپیگنڈا بند کرانا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ صدر عباس کے خلاف حماس کے ساتھ ساتھ امریکا اور اسرائیل نے بھی متوازی مہم شروع کر رکھی ہے۔ ماجد فرج کے مفاہمتی فارمولے میں حماس کے مصر اور محمد دحلان کے ساتھ تعلقات ختم کرنا بھی شامل ہیں۔