ٹوکیو (انٹرنیشنل ڈیسک) جاپان کے جنوب مغربی شہر ناگاساکی پر امریکا کی طرف سے ایٹم بم گرائے جانے کے واقعے کو 72 برس مکمل ہو گئے ہیں۔ گزشتہ روز مقامی وقت کے مطابق 11 بج کر 2 منٹ پر ہزاروں افراد نے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کرتے ہوئے اس افسوسناک حملے کی یاد تازہ کی اور ہلاک شدگان کو خراج عقیدت پیش کیا۔ 9 اگست 1945ء کے روز اسی وقت اس شہر پر ایٹم بم گرایا گیا تھا۔ جس کے نتیجے میں 74,000 شہری مارے گئے تھے جب کہ اس واقعے سے 3 دن قبل امریکا نے ایک اورجاپانی شہر ہیروشیما پر دنیا کی تاریخ کا پہلا ایٹم بم حملہ کیا تھا۔ بدھ کی صبح منعقدہ تقریب میں جاپانی وزیر اعظم شینزو آبے کے علاوہ شہر کے میئر اور بم حملے میں بچ جانے والے چند افراد نے بھی شرکت کی۔ اس حوالے سے شہر کے میئر نے ایک اور جوہری جنگ کے بڑھتے ہوئے خطرات سے خبردار کیا ہے۔ ناگاساکی کے میئر تومیشا تاؤ نے جوہری حملے کے 72 برس پورے ہونے کے موقع پر منعقدہ ایک تقریب سے خطاب میں جوہری طاقت رکھنے والے ممالک سے ایٹمی ہتھیاروں کو تلف کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس موقع پر انہوں نے ٹوکیو حکومت کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ عالمی سطح پر جوہری ہتھیاروں پر پابندی کے عمل میں بھرپور کردار ادا نہیں کر رہی۔ یہ تقریب ایک ایسے وقت پر منعقد ہوئی، جب امریکا اور شمالی کوریا کے حالات شدید تناؤ کا شکار ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیانگ یانگ کو آگ اور غصے کی دھمکی دی ہے، جواب میں شمالی کوریائی فوج نے بدھ کو کہا ہے کہ وہ گوام پر حملے کے بارے میں اپنے منصوبوں کا جائزہ لے رہی ہے۔ تاؤ کے بقول جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے بین الاقوامی سطح پر صورتحال سنگین ہوتی جا رہی ہے، انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں اس حوالے سے بے چینی بڑھتی جا رہی ہے کہ مستقبل قریب میں یہ ہتھیار دوبارہ استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ امن پارک میں منعقدہ تقریب میں انہوں نے مزید کہا کہ جوہری جنگ کا خطرہ اس وقت تک ختم نہیں ہو گا، جب تک ایٹمی ہتھیار رکھنے والے ممالک یہ دعویٰ کرتے رہیں گے کہ یہ ٹیکنالوجی ان کی قومی سلامتی کے لیے لازمی ہے۔