اٹلی‘ مہاجر مخالف بحری مہم بری طرح ناکام

305
روم: اٹلی سے شروع ہونے والی مہاجر مخالف تنظیم ’دفاع یورپ‘ کا بحری جہاز سی اسٹار بحیرۂ روم میں ناکام مہم جوئی کر رہا ہے (فائل فوٹو)

روم (انٹرنیشنل ڈیسک) ’دفاع یورپ‘ نامی دائیں بازو کے مہاجر مخالف گروپ کا بحری جہاز بحیرہ روم میں یورپ کا رخ کرنے والے مہاجرین کو روکنے اور احتجاج کے مشن پر تھا، لیکن یہ متنازع مہم زیادہ دیر چل نہیں پائی۔ انتہائی دائیں بازو کے نظریات رکھنے والے ’دفاع یورپ‘ نامی اس مہاجر مخالف گروپ میں یورپ بھر سے تعلق رکھنے والے افراد شامل تھے۔ اس گروہ نے بحیرہ روم میں اپنی سرگرمیاں شروع کرنے کے لیے ’کراؤڈ فنڈنگ‘ کی مدد سے قریب 2 لاکھ یورو جمع کیے تھے۔ دائیں بازو کے سرگرم کارکنوں نے اس چندے کی مدد سے ’سی اسٹار‘ نامی چارٹرڈ بحری جہاز حاصل کیا اور بحیرہ روم میں یورپ کا رخ کرنے والے مہاجرین کوروکنے کی مہم شروع کی تھی، لیکن لیبیا کے ساحلوں کے قریب ایک ہفتے سے بھی کم وقت گزارنے کے بعد ہی دفاع یورپ کو اپنی مہم ختم کرنا پڑی۔



بحیرہ روم کے انہی سمندری راستوں کے ذریعے رواں برس ہزاروں تارکین وطن لیبیا کے ساحلوں سے اٹلی پہنچے تھے۔ سی اسٹار کا عملہ اس بحری مہم کے دوران تارکین وطن کی کسی بھی کشتی کو واپس لیبیا کی جانب بھیجنے میں ناکام رہا، جو دفاع یورپ کی اس مہم کا اہم مقصد تھا۔ دائیں بازو کے اس مہاجرین مخالف گروہ کی مہم کو انسانی حقوق کی کئی تنظیمیں شدید تنقید کرتے ہوئے ’مجرمانہ عمل‘ قرار دے چکی ہیں۔ اگرچہ اس مہاجر مخالف مہم کے خاتمے کو دفاع یورپ کی ناکامی سے تعبیر کیا جا رہا ہے، لیکن جمعہ کے روز اس تنظیم نے مہم کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ انہوں نے اپنے مقاصد حاصل کر لیے ہیں۔



تنظیم کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ 2 ماہ قبل لیبیائی ساحلوں کے قریب سماجی تنظیموں کے کئی بحری بیڑے مہاجرین کو یورپ پہنچانے کے لیے یوں انتظار میں کھڑے تھے، جیسے کوئی ٹیکسی ڈرائیور اپنے گاہکوں کے انتظار میں کھڑا ہوتا ہے، لیکن اب وہاں ان کا صرف ایک بحری جہاز رہ گیا ہے۔ سی اسٹار نے اپنے بحری سفر کا آغاز جولائی کے اوائل میں جبوتی سے کیا تھا۔ مہم کی ابتدا ہی میں سوئیز نہر میں مصری حکام نے اسے قریب ایک ہفتے تک روکے رکھا تھا۔ بعد ازاں قبرص میں بھی سی اسٹار کا سفر متاثر ہوا تھا۔ دفاع یورپ کو اس مہم کے دوران قبرص میں اس وقت شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا تھا، جب اس جہاز کے عملے کے سری لنکا سے تعلق رکھنے والے افراد نے قبرص میں حکام کو اپنی سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرا دی تھیں۔