سی پیک: بھیانک حقیقت 

326

zr_masoodanwarسی پیک کے بارے میں سرکاری کار پردازوں کی بنائی ہوئی خوب صورت تصویر سے ایک منٹ کے لیے نگاہ ہٹا کر اس کے پس منظر میں جھانکنے کی کوشش کریں تو انتہائی بھیانک صورت حال نظر آتی ہے۔ محض کمیشن کے چکر میں ہر پروجیکٹ کی لاگت کئی گنا بڑھادی گئی ہے۔ زیادہ سے زیادہ پروجیکٹ سی پیک کے نام پر شروع کردیے گئے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ کمیشن مل سکے۔ سی پیک کا مطلب ہے ایک ایسی شاہراہ جس پر پاکستان اور چین کے درمیان تجارت کو فروغ دیا جاسکے۔ کہا گیا کہ چین کے ساتھ صنعتی اشتراک کے لیے خصوصی اکنامک زون بنائے جائیں گے۔ پھر کہا گیا کہ ان صنعتی زونوں کے لیے بجلی کی بھی ضرورت ہوگی، اس لیے بجلی گھر بھی بنائے جائیں گے۔ مگر کوئی یہ بتائے کہ لاہور میں میٹرو ٹرین کا سی پیک سے کیا تعلق ہے۔ اسی طرح کے دیگر کئی پروجیکٹ ہیں جن کا دیکھنے میں سی پیک سے کوئی تعلق نہیں ہے مگر وہ سی پیک کے نام پر لیے گئے قرض سے بن رہے ہیں۔ سرکار ہو یا اپوزیشن، ہر شخص کی کوشش ہے کہ اس کا اپنا ذاتی گھر بھی سی پیک کے کھاتے میں بن جائے۔



سی پیک کے لیے حاصل کیے گئے قرض کی شرح سود ہم دیکھ ہی چکے ہیں جو انتہائی زیادہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ 7 فی صد انشورنس پریمیم کسی بھی پروجیکٹ کو مالی طور پر ناکام بنانے کے لیے کافی ہے۔ ایک مرتبہ پھر سے صورت حال دیکھتے ہیں۔ سی پیک کے تحت شروع کردہ تمام پروجیکٹ قرض پر بن رہے ہیں جس پر شرح سود اور انشورنس پریمیم کی سالانہ شرح تقریباً 13.5 فی صد سالانہ ہے۔ یہ قرض پاکستانی کمپنیوں نے حاصل کیا ہے اور وہی اسے ادا کرنے کی پابند ہیں البتہ چینی کمپنیاں منافع میں 65 فی صد سے لے کر 88 فی صد تک کی حصہ دار ہیں اور یہ کمپنیاں ہر قسم کے ٹیکس کی ادائیگی سے مستثنیٰ ہیں۔
تمام پروجیکٹوں پر چینی کمپنیاں کام کررہی ہیں اور وہ خام مال سے لے کر مزدور تک چین سے لائی ہیں۔ سریا، سیمنٹ، آلات کچھ پاکستان سے نہیں خریدا جارہا اس طرح چینی کمپنیوں کو ایک نیا معاشی اچھال ملا ہے اور ان کے وارے نیارے ہوگئے ہیں۔ ہنر مند و غیر ہنرمند، دونوں طرح کی چینی لیبر کی زبردست کھپت بھاری تنخواہوں پر ہوئی ہے جب کہ پاکستانی ہنرمند و غیر ہنرمند لیبر باہر بیٹھی بیروزگاری کے عفریت سے نبردآزما ہے۔ اس طرح سے قرض کی یہ ساری رقم دوبارہ سے چین واپس لوٹ رہی ہے۔ کچھ عرصے کے بعد جب یہ پروجیکٹ مکمل ہوجائیں گے تو چینی بینکوں کے وارے نیارے ہوجائیں گے۔ چینی انشورنس کمپنی کو تو مفت میں بیٹھے بٹھائے 7 فی صد رقم سالانہ ہاتھ آئے گی۔



اس کے بعد پاکستانی معیشت کی تباہی کا دوسرا فیز شروع ہوگا۔ وہ ہے سی پیک کے تحت خصوصی اکنامک زون۔ پاکستان کی برآمدات روز روبہ زوال ہیں۔ پاکستانی برآمدات کا تقریباً 60 فی صد حصہ ٹیکسٹائل اور اس سے ملحقہ مصنوعات پر مشتمل ہے۔ پاکستان کہیں سے بھی چینی مصنوعات کا مقابلہ نہیں کرسکتا کیوں کہ پاکستانی صنعت کاروں نے صرف اور صرف ریبیٹ حاصل کرنے کے لیے دنیا کی فرسودہ ترین ٹیکنالوجی لگا رکھی ہے۔ اب چینی مصنوعات کی پاکستان میں چینی کمپنیوں کے تحت تیاری کا واحد مطلب یہ ہے کہ پاکستان اپنی برآمدات کے 60 فی صد حصے سے دیکھتے ہی دیکھتے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔
اس کے ساتھ ساتھ چینی کمپنیوں کو زراعت میں بھی سب کچھ کرنے کی آزادی دے دی گئی ہے۔ وہ جینیاتی تبدیل شدہ بیج اگانے کے پروجیکٹ بھی لگائیں گی اور کارپوریٹ سطح پر بڑے بڑے زرعی پروجیکٹ بھی شروع کریں گی۔ اس کے ساتھ ہی اب پاکستانی ہاری بھی بے روزگار ہوگا اور پاکستان کی اپنی خاص انواع و اقسام کی زرعی پیداوار بھی معدومی کے خطرے سے دوچار ہوں گی۔ پاکستانی صارف کو اصلی زرعی پیداوار کے بجائے جینیاتی تبدیل شدہ زرعی پیداوار ملے گی جس کے اپنے نقصانات ہیں اور اس کے خلاف دنیا بھر میں مہم جاری ہے۔



تمام نکات کو جوڑیں تو جو بھیانک تصویر بنتی ہے وہ یہ ہے کہ سی پیک کے تحت شروع کیے گئے منصوبے اقتصادی طور پر feasible نہیں ہیں اس لیے اس میں نادہندگی کے خطرات بہت زیادہ ہیں۔ چین نے ایسے ہی پروجیکٹ تاجکستان میں شروع کیے تھے اور نادہندگی کی بناء پر وہ تاجکستان کی 1000 مربع کلومیٹر زمین پر قبضہ کرچکا ہے۔ گوادر جیسا منصوبہ چین نے سری لنکا میں ہمبنٹوٹا کی بندرگاہ پر شروع کیا تھا اور نادہندگی کے بعد 2017 میں ہی 29 جولائی کو چین نے ہمبنٹوٹا کی بندرگاہ کا قبضہ حاصل کرلیا ہے۔ بھاری شرح سود، بھاری انشورنس پریمیم اور پروجیکٹوں کے feasible نہ ہونے کی بِنا پر ایسے ہی خدشات پاکستان میں بھی موجود ہیں۔ تاجکستان اور سری لنکا میں چینی بینکوں کی سرمایہ کاری پاکستان کے مقابلے میں انتہائی کم تھی۔ پاکستان میں خدشات ہیں کہ گوادر کے ساتھ ساتھ گلگت و بلتستان کا خطہ بھی چینی قبضے میں چلا جائے گا۔
چینی صنعت کاروں کو لامحدود چھوٹ کے نتیجے میں پاکستانی صنعت بہ آسانی چینی بینکوں کے شکنجے میں جاچکی ہوگی اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی زرعی منظر بھی تبدیل ہوچکا ہوگا۔



سی پیک کے معاہدے کہیں سے بھی پاکستان کے مفاد میں نہیں ہیں۔ مثلاً چینی عوام کو آزادی حاصل ہے کہ وہ سی پیک کے تحت بلاویزا پاکستان آمدورفت کرسکتے ہیں مگر ایسی ہی سہولت پاکستانی شہریوں کو نہیں دی گئی ہے۔ کسی بھی معاہدے میں حد بندی نہیں کی گئی ہے کہ جو خام مال پاکستان میں دستیاب ہے وہ پاکستان سے ہی لیا جائے گا، درآمد نہیں کیا جائے گا۔ کسی بھی معاہدے میں چینی کمپنیوں کو پابند نہیں کیا گیا ہے کہ کارکنان کی بھرتی پاکستان سے کریں گی۔ اسی طرح چینی کمپنیوں پر منافع کے تناسب سے قرض کا بوجھ نہیں ڈالا گیا ہے۔ یعنی اگر وہ 88 فی صد منافع لے جائیں گی تو 88 فی صد قرض کا بوجھ بھی ان پر ڈالا جائے۔ اسی طرح انہیں دیگر پاکستانی کمپنیوں کی طرح ٹیکس کی ادائیگی کا ذمے دار بھی ٹھیرایا جائے۔ اگر کوئی پروجیکٹ نہیں چل پاتا تو اس کا ذمے دار پاکستانی پارٹنر کے ساتھ ساتھ چینی پارٹنروں کو بھی ہونا چاہیے۔ مگر ایسا کہیں پر بھی کچھ بھی نہیں ہے۔ جب اس قسم کی بات کی جائے تو ہمالیہ سے بلند، سمندر سے گہری اور شہد سے میٹھی دوستی کا نعرہ لگا کر منہ بند کردیا جاتا ہے۔



یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ جدید دنیا میں غلام بنانے کا طریقہ فوج کشی نہیں ہے بلکہ قوم کو قرض کے بوجھ تلے دبا دینا ہے۔ چھوٹا سا قرض لے کر تو ہم آئی ایم ایف کے ہر املا پر یس سر، یس سر کہنے پر مجبور ہیں۔ ایک منٹ کو سوچیں کہ جب چینی بینکوں کے نادہندہ ہوں گے تو کیا صورت حال ہوگی۔ یہ سب سوچنے کے لیے زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ حال میں ہی تاجکستان اور سری لنکا کے ساتھ ان چینی بینکوں کے معالات سب بتانے کے لیے کافی ہیں۔
اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔