بیروت (انٹرنیشنل ڈیسک) بچوں کے حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ’سیو دی چلڈرن‘ نے مطالبہ کیا ہے کہ شام کے شہر رقہ کے اُن بچوں کو نفسیاتی علاج فراہم کیا جائے، جنہوں نے داعش تنظیم کی حکمرانی اور اس کے بعد شہر سے شدت پسندوں کو نکالنے کے لیے کیے جانے والے فوجی آپریشن کے دوران شدید خوف و دہشت میں وقت گزارا۔ شام میں تنظیم کی ذمے دار سونیا خوش کا کہنا ہے کہ رقہ میں زندہ رہ جانے والے بچوں کو نفسیاتی علاج فراہم کرنا انتہائی ضروری ہے، تا کہ تشدد اور سفاکیت کے مناظر دیکھنے کے نتیجے میں پہنچنے والے ذہنی صدمے سے باہر آنے میں ان بچوں کی مدد کی جا سکے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر ہم نے ان بچوں کی نفسیاتی ضرورت کو پورا نہ کیا، تو خطرہ ہے کہ بچوں کی ایک پوری نسل ساری زندگی کے لیے اذیت کا شکار ہو جائے گی۔
عالمی تنظیم نے رقہ شہر سے فرار اختیار کرنے والے بچوں اور ان کے گھر والوں سے خصوصی بات چیت بھی کی۔ تنظیم نے جن بچوں سے بات چیت کی ان میں 13 سالہ لڑکی رشیدہ بھی شامل ہے۔ رشیدہ نے چند ماہ قبل اپنے گھر والوں کے ساتھ رقہ سے بھاگ کر شہر کے شمال میں قائم بے گھر افراد کے کیمپ میں پناہ لی۔ تنظیم کے مطابق رشیدہ نے بتایا کہ ایک مرتبہ دہشت گردوں نے کچھ لوگوں کے سر کاٹ کر ان کے دھڑوں کو زمین پر پھینک دیا اور میں اس منظر کی تاب نہیں لا سکی۔ لڑکی نے مزید بتایا کہ میں اس رات سو نہیں پائی، کیوں کہ جو کچھ میں نے دیکھا، اس کے خوف کے سبب پوری رات جاگتی رہی۔ داعش تنظیم کے زیر قبضہ علاقوں کی آبادی دہشت گردوں کے احکامات کے سبب مستقل طور پر خوف کا شکار رہتی ہے۔ یہ دہشت گرد موت کے گھاٹ اتارنے کی کارروائیوں اور وحشیانہ سزاؤں کے ذریعے لوگوں میں خوف و دہشت کا احساس بھر دیتے ہیں۔
امریکا نواز شامی جمہوری فوج 6 جون سے داعش تنظیم کو رقہ شہر سے نکال دینے کے لیے معرکہ آرائی میں مصروف ہے۔ ابھی تک اس ملیشیا نے تقریباً 60فیصد علاقوں کا کنٹرول حاصل کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق معرکہ آرائی کے نتیجے میں ہزاروں افراد کے فرار ہونے کے باوجود تقریباً 25 ہزار افراد ابھی تک شہر کے اندر محصور ہیں۔ لڑائی کی شدت کے ساتھ ہی شہریوں کی ہلاکتوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ ادھر شامی مبصر برائے انسانی حقوقنے لڑائی اور واشنگٹن کے زیر قیادت بین الاقوامی اتحاد کے فضائی حملوں میں سیکڑوں شہریوں کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔ سیو دی چلڈرن تنظیم نے خبردار کیا ہے کہ اتحادی طیاروں کے حملوں نے رقہ کے باشندوں کے لیے کوئی محفوظ اختیار نہیں چھوڑا ہے۔ اب یا تو وہ شہر میں رہیں اور ممکنہ طور پر بم باری کا نشانہ بن جائیں، یا پھر کوچ کرنے کی کوشش کریں، جس میں داعش کی طرف سے حملے یا بارودی سرنگوں کے ذریعے اپنی جانیں کھو دینے کا خطرہ ہے ۔
دوسری جانب رقہ میں عسکری جارحیت کے پیش نظر اقوام متحدہ نے جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے، تا کہ شہریوں کے نکلنے کے لیے میدان صاف ہو سکے۔ جب کہ سیو دی چلڈرن نے بھی اپنے طور پر شہریوں کے لیے محفوظ گزرگاہیں تلاش کرنے پر زور دیا ہے۔