نیویارک (انٹرنیشنل ڈیسک) دنیا بھر سے انسانی حقوق کی 57 تنظیموں نے ایک خط کے ذریعے اقوام متحدہ سے یمن میں جاری مظالم کی تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔ یمن تنازع میں اب تک ہزاروں افراد مارے جاچکے ہیں اور انسانی بحران دن بہ دن سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ عرب دنیا کا یہ غریب ترین ملک ایک عرصے سے جنگ کا شکار ہے، اور اس وقت لاکھوں افراد کو قحط کا سامنا ہے۔ جنگ کے ان بڑھتے ہوئے نقصانات کے پیش نظر 57 تنظیموں نے مشترکہ طور پر اس بات پر زور دیا ہے کہ یمن میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی آزادانہ تحقیقات کی جائیں اور ذمے داروں کا تعین کرکے انہیں سزا دی جائے۔ 2015ء میں اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے یمن میں انسانی حقوق کی ان مبینہ خلاف ورزیوں کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا، تاہم اس حوالے سے عالمی برادری کی کوئی واضح حکمت عملی سامنے نہیں آئی۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مشرق وسطی کے ریسرچ ڈائریکٹر کا الجزیرہ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہنا تھا کہ یمن میں کام کرنے والی انسانی حقوق کی تنظیمیں مارچ 2015ء سے جاری مظالم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی دستاویزکاری کرنے کی کوشش کر رہی ہیں، تاہم انہیں کئی علاقوں تک رسائی حاصل نہیں اور سعودی اتحادی افواج ان کے کام کو مزید مشکل بنا رہی ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اتحادیوں نے صحافیوں اور بین الاقوامی تنظیموں کا یمن میں کام کرنا مشکل کر دیا ہے۔ سعودی عرب کی جانب سے اپنے حلیف یمنی صدر عبد ربہ منصور ہادی کی حمایت کے لیے کی گئی مداخلت کے بعد سیاب تک 10 ہزار سے زائد افراد مارے جاچکے ہیں اور قریب 40 ہزار زخمی ہوئے ہیں۔ ساتھ ہی اقوام متحدہ نے یمن کو ’دنیا کا سب سے بڑا انسانی بحران‘ قرار دے دیا ہے۔
جنگ اور مظالم کا شکار یمنی قوم ہیضے جیسی مہلک وبا کے بھی شکار ہیں۔ اپریل کے بعد سے اس مرض میں مبتلا ہونے والے 2 ہزار سے زائد افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں اور 3 لاکھ سے زائد اس کا شکار ہیں۔ اگرچہ یونیسف نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس وبا کے پھیلاؤ میں کچھ کمی آئی ہے۔ تاہم اس کا خطرہ ابھی باقی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا اقوام متحدہ یمن میں سعودی اتحاد کی جانب سے انسانی حقوق کی ان خلاف ورزیوں کی تحقیقات کرائے گی۔ دوسری جانب یمن کے جنوبی علاقہ جات کو اپنے زیر اثر لینے والی شدید بارش سے پیدا ہونے والے سیلاب سے ہلاک شدگان کی تعداد 14 ہو گئی ہے۔
اطلاع کے مطابق صوبہ لحج میں سیلاب سے ہلاک ہونے والوں میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں، جب کہ ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔ علاقے کے ایک شہری کا کہنا ہے کہ مقاترا اور عدن کے درمیان رابطے کا واحد راستہ آمدورفت کے لیے بند ہو چکا ہے اور جن مقامات پر سیلاب آیا ہے وہاں پر شہریوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے۔ واضح رہے کہ یہ گزشتہ 20 برسوں کی شدید ترین بارش ہے۔