روہنگیا مسلمانوں کی مدد کرنا سب کی ذمے داری ہے

350

دین سے دوری کا انجام تباہی کے سوا کچھ نہیں‘ مسلم حکمرانوں کی خاموشی بھی ’جرم‘ کے مترادف ہے
خواتین اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے امدادی کام کرسکتی ہیں‘ چیئرپرسن جامعۃ المحصنات تحسین فاطمہ
تدوین: غزالہ عزیز
میانمر (برما) میں روہنگیا مسلمانوں پر ظلم وستم کی سیاہ رات چھائی ہوئی ہے۔ بے بس لوگوں پر زندگی مزید کٹھن اور زمین تنگ کردی گئی ہے۔ معصوم بچوں، خواتین، بوڑھوں، جوانوں پر بہیمانہ ظلم کرنے والے بدھ مذہب کے ماننے والوں میں انسانیت دم توڑ چکی ہے۔ اس صورتحال میں پاکستانی خواتین اپنے قلوب میں جذبات کا ایک سمندر محسوس کرتی ہیں۔ وہ روہنگیا مسلمانوں کے بہن بھائیوں کے لیے کچھ کرنا چاہتی ہیں۔ ایسے میں وہ کیا کریں؟ کیسے کریں؟ ان سوالوں کے جواب کے لیے ہم نے جماعت اسلامی کی رہ نما تحسین فاطمہ سے رابطہ کیا۔ تحسین فاطمہ جماعت اسلامی کے مختلف منصوبوں اور شعبوں کی منتظم رہ چکی ہیں۔ اس وقت جامعۃ المحضات کی چیئر پرسن ہیں۔ روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار اور ان پر میانمر حکومت و فوج کے غیر انسانی مظالم کے حوالے سے کی گئی گفتگو قارئین کے لیے پیش کی جا رہی ہے:
جسارت: ایک عورت خاص طور سے مشرقی عورت بہت مجبور ہوتی ہے، وہ خود اپنی مدد نہیں کرسکتی تو ہزاروں میل دور روہنگیا کے مسلمانوں کی مدد کس طرح کرسکتی ہے؟
تحسین فاطمہ: روہنگیا کے مسلمانوں کے لیے اصل کام تو دنیا کے حکمرانوں، انسانیت کے نام نہاد علم برداروں کو کرنا ہے۔ ان کی داد رسی انسانی حقوق کی تنظیموں اور اقوام متحدہ کو کرنا چاہیے۔ ان سب سے بڑھ کر مسلمان ممالک کے حکمرانوں کی موجودہ حالات کے پیش نظر اولین ذمے داری ہے کہ وہ اپنے بھائیوں، بہنوں اور سب سے بڑھ کر معصوم بچوں پر ہونے والے غیر انسانی مظالم کا نوٹس لیں۔ وہ بے اختیار نہیں ہیں۔ وہ میانمر کی حکومت کا سماجی اور معاشی بائیکاٹ کرسکتے ہیں۔ اپنے ملکوں میں اس کے سفرا کو بلاکر تنبیہ کرسکتے ہیں اور پھر ان کو نکال بھی سکتے ہیں۔ اپنے سفیر وہاں سے و اپس بلائے جا سکتے ہیں، لیکن وہ یہ سب نہیں کررہے۔ میانمر میں بچے ذبح ہورہے ہیں، عورتوں کی عصمت دری ہورہی ہے، بوڑھوں اور نوجوانوں کو اذیت ناک طریقے سے قتل کیا جارہاہے، گائوں کے گائوں جلائے جارہے ہیں لیکن وہ کوئی فیصلہ لینے اور اپنا کردار ادا کرنے پر تیار دکھائی نہیں دیتا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے حکمران ذہنی طور پر مغرب کے غلام بن چکے ہیں۔ مغرب کی تعلیم ان کے ذہنوں کو تبدیل کرچکی ہے۔ انہیں یہی سکھایا گیا ہے کہ سب سے پہلے اپنے آپ کو دیکھو، اپنا مفاد عزیز رکھو، وہ جو اقبال نے کہا ہے:
گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے ترا
کہاں سے آئے صدا لا الٰہ الاللہ
اب سوال رہ گیا کہ مجبور عورت کیا کرے؟ تو دیکھیے ! عورت خواہ کہیں کی بھی ہے، مشرقی یا مغربی، وہ مجبور نہیں ہے؟ وہ مظلوم روہنگیاؤں کے لیے مال سے مدد کرسکتی ہے، اپنی ضروریات کو پیچھے رکھ کر ان مظلوم اور معصوم بچوں کے لیے کھانے، دودھ اور خیموں کے لیے اپنی بچت، اپنی جمع پونجی دے سکتی ہے، پھر جہاں کہیں باہر نکل کر احتجاج کیا جارہاہے، وہاں وہ خود اپنے بچوں یا اہل خانہ کے ساتھ باطل کے خلاف آواز حق بلند کر سکتی ہے۔ پھر سب سے اہم بات کہ اپنے روہنگیا مسلمانوں بہن بھائیوں کے لیے دعا کرسکتی ہے۔ ہر نماز کے بعد، تہجد میں، اٹھتے بیٹھتے اﷲ سے مدد مانگی جائے، دعائیں کی جائیں، پورے اخلاص نیت اور درد مندی کے ساتھ اﷲ کو مدد کے لیے پکارا جائے۔ یقیناً یہ عورتوں کی طرف سے ان کے لیے بھرپور مدد ہوگی۔
جسارت: آج مسلمانوں کا خون اس قدر ارزاں اور بے وقعت ہے؟ کیا یہ بھی خودمسلمانوں ہی کا قصور ہے؟
تحسین فاطمہ: دیکھیے خون تو ہر انسان کا محترم ہے۔ جہاں کہیں بے گناہوں کا خون گرے، اس کا داد رس ہونا چاہیے۔ اسلامی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ مسلم حکمرانوں نے مظلوم غیر مسلموں تک کا ساتھ دینے کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا ۔
جہاں تک مسلمانوں کے خون کی ارزانی کا تعلق ہے تو ہمارا عقیدہ اور ہماری کتاب یہ بتاتی ہے کہ مظلوم نہ بنو، جدو جہد کرو، مجبور نہ بنو، کسمپرسی کے عالم میں نہ رہو ۔ مکہ کا دور مشرکوں کی طرف سے ظلم کا تھا تاہم اللہ کے رسولؐ نے اس دور میں بھی ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھے رہنا گوارا نہیں کیا، ہر طرح کی کوششیں کیں، تعلیم و تربیت اور سفر کے منصوبے بنائے۔ اُٹھتے بیٹھتے لوگوں کو اللہ کے دین کی طرف بلایا اور جب ایک ٹیم تیار ہو گئی، ایک سر زمین حاصل ہو گئی تو پھر پورے عرب میں اسلام کو پھیلتے دیر نہ لگی۔ ایک مقتدر قوت بنتے دیر نہ لگی۔ قرآن بتاتا ہے کہ اہل ایمان وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے ، زکوٰۃ دیں گے ،نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے اور تمام معاملات کا انجام کار اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔ (سورۃ الحج 41)
جب دین کے یہ کام چھوڑ دیے جائیں گے اور لوگ دنیا میں لگ جائیں گے تو پھر تویہ ہی ہونا ہے۔ دنیا کی محبت اور موت کا خوف دونوں کو دلوں سے نکال پھینکنا ہوگا۔ اس سے قبل بھی قومیں تباہ و برباد ہوتی رہیں ہیں۔ ہمیں توبہ و استغفار کرنا چاہیے، قبل اس کے کہ ہم پر برا وقت یا کوئی افتاد آئے۔
اپنے مقصد زندگی کو سمجھیں اور اس کے لیے متحد ہو کر کوششیں کریں۔ دیکھیے آج لاکھوں لوگ حج کر کے فارغ ہوئے ہیں۔ یہ مسلمانوں کی قوت کا اظہار تھا، لیکن اس کے باوجود میانمر جیسی کمزور حکومت کا مسلمانوں پر یہ ظلم بتاتا ہے کہ مسلمان کا خون واقعی ارزاں اور بے وقعت ہے اور ایسا اس وقت تک ہوتا رہے گا جب تک مسلمان اپنے دل سے مال کی محبت اور موت کا خوف نہیں نکال دیتا اور متحد ہو کر اپنے مقصد حیات پر عمل نہیں کرتا۔
جسارت: روہنگیا کے مسلمانوں کو جس طرح گاجر مولی کی طرح کاٹا جا رہا ہے، ان کے گھروں کو جلایا جا رہا ہے یہاں تک کہ معصوم بچوں پر ظلم کرتے ہوئے بھی بدھ مت کے ان پیرو کاروں کے دل نہیں لرزتے، انسانیت کے اس حد تک گرنے کی وجہ کیا ہے اور کیا عالمی طاقتوں کا خاموش رہنا ان کے شریک جرم ہونے کے مترادف نہیں ہے؟
تحسین فاطمہ : اقوام عالم کی خاموشی در اصل ان کی رضا مندی ہے۔ اس میں خود مسلم حکمران بھی شامل ہیں۔ ایمان کا آخری درجہ ہوتا ہے غلط کو دل سے غلط سمجھنا۔ برائی کو کم از کم دل میں برا جاننا، لیکن یہ دل میں سمجھنا عمل سے عیاں ہو ہی جاتا ہے۔ کچھ اشارے کچھ آنسو ، لیکن شاید یہ بھی نہیں ہوا۔مسلم عوام کا معاملہ مختلف ہے۔ ساری دنیا کے مسلمان اس ظلم کو سمجھ رہے ہیں لیکن بات ہے کہ ایمان کے آخری درجے سے آگے بڑھنے کی۔ کالج کے زمانے میں بس کی آخری سیڑھی پر جگہ ملتی تھی تو کوشش ہوتی تھیں کہ کسی طرح آگے بڑھیں اور اندر جگہ مل جائے۔ پھر یہ تو ایمان کا معاملہ ہے۔ ہمیں اس کے آخری درجے پر نہیں رہنا بلکہ دامے درمے سخنے کوشش ہونی چاہیے کہ آگے بڑھیں اور ایمان کے اگلے درجے میں شامل ہوں۔