تعلیم ہی اصل زیور ہے

787

zc_Mian Muneerادارے کسی بھی قوم کی فکری و معاشرتی تاریخ میں بڑی قدر ومنزلت کے حامل ہوتے ہیں اور ان کے نشیب و فراز اداروں کے عروج و زوال کے ساتھ ہی مشروط رہے ہیں مغرب کی چلاکیاں اور مسلمانوں کے علمی نسخے تباہ کرنا اپنی جگہ، مگر اس کی معاشی ترقی کا سنجیدہ تجزیہ اور راز ادارہ سازی میں ہی پوشیدہ ہے مغرب نے صدیوں کی ریاضت سے اپنے سیاسی، معاشرتی، فکری اور تعلیمی اداروں کومضبوط بنایا ہے تعلیم کا بہترین نظام کسی بھی ملک کی سماجی حیات میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت کا حامل ہوتا ہے بنی آخر الزمان ؐ نے بھی فرمایا کہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔
پاکستان میں بھی ستمبر 2002ء میں ہائر ایجوکیشن کے نام سے ایک ایسے ہی ادارے کی تشکیل ہوئی، جس کا اوّلین مقصد پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے نظام کو جدید خطوط پر استوار کر کے روح عصر سے ہم آہنگ کرنا اور قومی تقاضوں کا حامل بنانا تھا ہائر ایجوکیشن کمیشن نے گزشتہ ایک عشرے میں اپنے فعال، متحرک اور نتیجہ خیز کردار سے قومی تفاخر میں اضافہ کیا ہے۔



وطن عزیز کی معاشرتی، معاشی اور تکنیکی پیش رفت کے لیے یونیورسٹی نظام تعلیم کی اہمیت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے دُنیا کے بیش تر ممالک، بالخصوص وفاقی نظام حکومت کی حامل ریاستوں میں اعلیٰ تعلیم کے نظام کی نگرانی اور انہیں مربوط رکھنے کے لیے بین الجامعاتی اداروں کے قیام کی مستحکم روایت کو اپنایا گیاکسی بھی مُلک میں ڈگریاں عطا کرنے والے سرکاری و نجی اداروں کی تعداد میں اضافے، ان کے تدریسی پروگرام کے تنوع، نصابی مضامین کی کثرت اور قومی تقاضوں کی حساسیت کی وجہ سے ایسے نگران اداروں کی ناگزیریت مسلمہ ہے، جو اپنے عمل و کارکردگی سے قومی ضرورتوں میں باہمی مطابقت پیدا کریں اورخود وفاق کا نمائندہ بھی ہوں۔ پاکستان کے قومی مسائل کے ادارک اور ان کے حل کے لیے تعلیم، بالخصوص اعلیٰ تعلیم کے فروغ اور مطابقت کے لیے ایسے ثمر آور ادارے کی ضرورت شروع ہی سے محسوس کی جانے لگی تھی، تاہم مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں پنہاں تعلیمی نظام کی ابتری کے کردار کی بناء پر یہ احساس بڑھ گیا۔



سقوط ڈھاکا کی کوکھ سے یہ احساس بھی پیدا ہوا کہ تعلیم ہی وہ بنیاد ہے، جس پر صوبوں یا علاقوں کی ترقی کا انحصار ہے۔ 1973ء کے دستور سے پہلے تعلیم صوبائی معاملہ تھا، اٹھارویں آئنی ترمیم کے بعد ایک بار پھر یہ صوبائی معاملہ بنادیا گیا ہے، 1974ء میں ملک میں کام کرنے والی جامعات کی کارکردگی کی نگرانی کے لیے یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کا قانون منظور ہوا تو اس کے ساتھ ہی وفاق پاکستان نے اعلیٰ تعلیم کو مربوط کرنے، تحقیق و تدریس کو بہتر کرنے کے لیے پالیسی سازی کا اختیار حاصل کر لیا، تاہم اعلیٰ تعلیم کے اداروں کی کارکردگی کے حوالے تنظیم سازی کی تجویز گردش کرنے لگی اسی کے نتیجے میں 1992ء میں پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے حوالے عالمی بینک کی رپورٹ میں اس تنظیم کو مستحکم کرنے کی تجویز آئی اور برطانیہ کی یو جی سی کے سابق سربراہ نے یو جی سی کی ضرورت کو ناگزیر قرار دیا اور تجویز دی کہ اگر یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کا وجود نہ بھی ہوتا، پھر بھی اسے تشکیل دینا پڑتا۔



جنرل مشرف دور میں ڈاکٹر عطاء الرحمن کی کوششوں سے 2002ء میں وزارت تعلیم کے زیر انتظام پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کی ترقی کے لیے ماہرین کی کمیٹی قائم ہوئی، جس نے پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر میں اعلیٰ تعلیم کے معیار و ثمرات کو بہتر بنانے کے لیے ایک مرکزی ادارے کی ضرورت کو کلیدی قرار دیا اور اس ادارے کو ’’ہائر ایجوکیشن کمیشن‘‘ کے نام سے تجویز کیا حکومت نے ستمبر 2002ء کو آرڈی ننس جاری کیا، جس کے تحت ’’کمیشن برائے اعلیٰ تعلیم‘‘ کا قیام عمل میں آ گیا اور یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کا ایکٹ مجریہ1974ء منسوخ قرار پایا۔
گزشتہ ڈیڑھ عشرے سے پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے کمیشن نے جذبے، حوصلے، لگن سے تعلیم و تطہیر کا کام کیا، جس کے نتیجے میں اعلیٰ تعلیم کے میدان میں ہماری کارکردگی ہر حوالے سے بہتر ہوئی اور اسے عالمی سطح پر پزیرائی بھی ملی۔



ہمارے ہاں تحقیقی مطبوعات کی تعداد میں اضافے کو دُنیا بھر میں دوسرا اہم ترین اضافہ قرار دیا گیا۔ نامساعد حالات کے باوجود پاکستان فی کس آبادی کے لحاظ سے ہندوستان سے زیادہ تحقیقی مقالے شائع کر رہا ہے۔ ہماری جامعات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے حامل اساتذہ کی تعداد میں قابل رشک اضافہ ہوا ہے ہائر ایجوکیشن کمیشن نے تمام تر نامساعد حالات کے باوجود مثبت اور نتیجہ خیز اصلاحات متعارف کروائیں۔ انفرا اسٹر کچر کی بہتری کے لیے ہر ممکن کوشش کی اور علمی محققین کو ڈیجیٹل لائبریری تک رسائی، اساتذہ کی تربیت، تعلیم کے شعبے میں نمایاں عالمی اداروں کے ساتھ اشتراک اور وظائف کی میرٹ پر تقسیم کے کلچر نے پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کی سمت کا تعین ضرور کر دیا ہے صرف ایک دہائی میں پچاس کے قریب نئی یونیورسٹیوں کا قیام کسی کارنامے سے کم نہیں۔



یونیورسٹی کی سطح پر زیر تعلیم طالب علموں کی تعداد میں قابل قدر اضافہ ہوا ہے ڈیڑھ عشرے میں چھ ہزار سے زیادہ لوگ ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے، ان کے مناسب روزگار کا مسئلہ بھی چل رہا ہے تاہم تعلیمی پس ماندگی کے شکار علاقوں کے لیے خصوصی فنڈز جاری کیے گئے ہیں تمام صوبوں کو یکساں مواقع فراہم کر کے قومی یکجہتی میں متحرک کردار ادا کیا گیا ڈاکٹر مختار احمد جیسی حوصلہ مند اور صاف ستھرے فکر و عمل کی حامل شخصیت کی قیادت اور ان کی رہنمائی میں یہ ادارہ ان کا مقابلہ کرنے کی سعی میں شب و روز مصروفِ عمل ہے ہائر ایجوکیشن کمیشن ان چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے شفاف سرمایہ کاری، انفرا اسٹرکچر کی بہتری، کاروباری دُنیا اور صنعتی شعبہ سے مضبوط روابط کے لیے قابل عمل پالیسیوں پر گامزن ہے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن محض ایک ادارہ یا تنظیم نہیں ہے، بلکہ یہ قومی مقاصد کو حقیقت کا روپ بخشنے والا مرکزبن چکا ہے اُمید ہے کہ یہ قومی تقاضوں اور ملّی ضروریات سے ہم آہنگ کرکے علمی ثقافت پیدا کرے گا۔