میانمر‘ مسلمانوں پر مظالم سے متعلق حکومتی فریب بے نقاب

380
ڈھاکا: میانمر سے کشتی کے ذریعے نقل مکانی کرنے والے روہنگیا مسلمان بنگلادیشی ساحل پر اتر رہے ہیں

نیپیداؤ (انٹرنیشنل ڈیسک) میانمر میں بین الاقوامی صحافیوں کو ان علاقوں میں لے جایا گیا ہے، جہاں روہنگیا مسلمانوں پر ظلم کیا گی اور ان کے دیہات کو آگ لگا دی گئی۔ اس دوران حکومت نے ایسے لوگوں کو روہنگیا باشندے بنا کر صحافیوں کے سامنے پیش کیا، جن کا دعویٰ تھا کہ وہ ہندو ہیں اور مسلمانوں نے ان پر ظلم کیا ہے۔ اسی طرح مسلمانوں کا لباس پہنچنے کچھ افراد کو جھونپڑیاں نذرآتش کرتے ہوئے بھی پیش کیا گیا۔ تاہم اس جھوٹ کا پول اس وقت کھل گیا، جب بعض غیرملکی صحافیوں نے شناخت کیا کہ جو خاتون اور مرد چند گھنٹوں پہلے ہندو بن کر خود پر مسلمانوں کے مظالم کی داستان سنا رہے تھے، وہی اب مسلمان بن کر ان جھونپڑیوں کو آگ لگا رہے ہیں۔ صحافیوں نے دونوں واقعات کی تصاویر بھی عام کی ہیں، جن میں دونوں مرد و عورت کو بہ آسانی شناخت کیا جاسکتا ہے۔



دوسری جانب اقوام متحدہ نے منگل کے روز کہا ہے کہ حالیہ شورش میں بنگلادیش پہنچنے والے روہنگیا باشندوں کی تعداد 3لاکھ 70ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔ جب کہ بنگلادیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے جنوب مشرقی علاقے کوکس بازار کے دورے کے موقع پر کہا کہ میانمر کو اپنے لوگوں کی جانب سے شروع کیے گئے مسئلے کو خود حل کرنا ہو گا۔ میانمر حکومت پر روہنگیا کا بحران حل کرنے کے لیے عالمی دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے آج بدھ کے روز سلامتی کونسل کا ایک ہنگامی اجلاس بھی طلب کیا گیا ہے۔ سلامتی کونسل کے اس اجلاس کی درخواست برطانیہ اور سوئیڈن نے کی ہے۔ اس اجلاس کا اعلان اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمشنر زید رعد الحسین کے اس بیان کے چند گھنٹوں بعد کیا گیا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ میانمر میں جاری تشدد ’نسلی تطہیر‘ کے مترادف ہے۔ ادھر واشنگٹن حکومت نے بھی میانمر کے روہنگیا باشندوںں کو تحفظ فراہم کرنے اور بنگلادیش کے لیے بین الاقوامی امداد فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔