کراچی (رپورٹ: قاضی عمران احمد) حکومت سندھ اور بلدیاتی اداروں کی نا اہلی اور غفلت نے لاکھوں شہریوں کو متعدی امراض کا شکار بنا دیا ہے، شہریوں میں ڈائیریا، گیسٹرو، پیٹ اور پھیپھڑوں کے امراض سمیت ہیپا ٹائٹس اے میں اضافہ ہو رہا ہے، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں جوہڑ کا منظر پیش کرتی سڑکیں، ابلتے گٹر، جا بہ جا کچروں کے ڈھیر اور ان سے اٹھتا تعفن اور اس کے نتیجے میں پھیلتی بیماریاں، نالوں پر قائم ہوٹل، دکانیں اور ڈھابے میٹرو پولیٹن سٹی کراچی کی گزشتہ کئی برسوں سے شناخت بن چکے ہیں، حکومت نام کی کوئی چیز شاید اس شہر میں وجود نہیں رکھتی، ملک بھر میں سب سے زیادہ ریونیو دینے والا شہر لاوارث ہو چکا ہے، صفائی ستھرائی اور خدمت کے دعوے محض بیانات، اعلانات اور دعووں تک ہی محدود ہیں عملاً ان کا کوئی وجود نہیں ہے۔ ان خیالات کا اظہار ماہرین طب و امراض ڈاکٹر محمد شوکت علی ملک، ڈاکٹر مرزا علی اظہر، ڈاکٹر قیصر سجاد اور ڈاکٹر احمد بھیمانی نے ’’جسارت‘‘ سے کراچی شہر کی بلدیاتی صورت حال میں شہریوں پر مرتب ہونے والے طبی اثرات کے حوالے سے ان سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔
ڈاکٹر مرزا علی اظہر نے اس حوالے سے کہا کہ یہ گندگی کے ڈھیر، ابلتے گٹر اور سڑکوں گلیوں میں بہتا گندا پانی آج کا نہیں برسوں پرانا مسئلہ ہے اور دل چسپ بات یہ ہے کہ اب تو اس گندگی سے شہر کے پوش علاقے بھی مستثنیٰ نہیں رہے، کلفٹن، ڈیفنس، گلشن اقبال، گلستان جوہر، فیڈرل بی ایریا، نارتھ ناظم آباد سمیت تمام پوش علاقوں کی بھی حالت لیاقت آباد، نئی کراچی، ملیر، لانڈھی، کورنگی، اورنگی ٹاؤن، گولی مار، گل بہار اور رنچھوڑ لائن جیسے متوسط طبقے کے علاقوں سے بدتر نہیں تو بہتر بھی نہیں ہے۔ ڈاکٹر شوکت علی ملک نے کہا کہ اگر آپ پورے شہر کی مجموعی صورت حال کا جائزہ لیں تو حکومتی دعووں کے برعکس کسی بھی جگہ صورت حال بہتر نظر نہیں آتی، چاہے وہ امن و امان کا مسئلہ ہو، چاہے وہ ٹریفک کا نظام ہو، صفائی ستھرائی ہو یا سڑکوں کی مرمت حکومت سندھ نے کراچی کو مکمل طور پر نظر انداز کر رکھا ہے، سینیٹری ورکرز اول تو شہر کی آبادی کی مناسبت سے موجود نہیں ہیں، جو ہیں وہ ڈیوٹی پر نہیں آتے اور اگر آ جائیں تو اپنی ڈیوٹی پوری نہیں کرتے یہی وجہ ہے کہ شہر گندگی کے ڈھیر میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے، اور یہ گندگی کے ڈھیر شہریوں کو انتہائی مہلک بیماریوں میں مبتلا کرتے جا رہے ہیں۔
ڈاکٹر قیصر سجاد کا کہنا تھا کہ شہر میں کچرے کے ڈھیروں کے باعث فضائی آلودگی میں بے انتہا اضافہ ہو رہا ہے اور اس کا ایک سبب پلاسٹک کی تھیلیاں بھی ہیں کہ جن پر کافی عرصہ پہلے پابندی بھی عائد کر دی گئی تھی مگر بعد ازاں نا معلوم وجوہ کی بنا پر دوبارہ ان کے استعمال کی اجازت دے دی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ تھیلیاں تحلیل نہیں ہو سکتیں اور ہمارے سینیٹری ورکرز کچرا اٹھانے کے بجائے انہیں جلا دیتے ہیں جس کے باعث پہلے سے آلودگی کی شکار فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور مونو آکسائیڈ کے شامل ہونے سے فضا قریباً زہریلی ہو جاتی ہے۔ ڈاکٹر احمد بھیمانی کا کہنا تھا کہ جگہ جگہ کچرے کے ڈھیروں کے ساتھ گٹروں کا گندا پانی شامل ہوتا ہے تو یہ کچرے کے ڈھیر گلنے اور سڑنے لگتے ہیں جس سے ان میں مہلک بیماریوں کے جراثیم پیدا ہوجاتے ہیں جو شہریوں میں ہر قسم کی بیماریاں مثلاً ڈائیریا، نمونیا، سانس کی بیماریاں، جلدی اور پھیپھڑوں کے امراض، متلی، آنکھوں کی سوزش، ناک کی الرجی اور گلے کی خراش جیسی تکالیف پھیلانے کا سبب بن رہے ہیں۔
طبی ماہرین کے مطابق بارشوں کے بعدصورت حال مزیدخراب ہوگئی اوربیماریوں کادائرہ وسیع سے وسیع ترہوتاجارہاہے، ان کاکہناہے کہ گنداپانی زمین میں جذب ہو کر سیوریج اور پینے کے پانی کی لائنوں میں بھی شامل ہو جاتا ہے جو بعد ازاں شہریوں کے گھروں کے ٹینکوں میں جمع ہوتا ہے اور پھر متعدی بیماریوں کا باعث بنتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ یہ پانی بورنگ کے پانی میں بھی شامل ہو کر شہریوں کے لیے الٹی، دست، پیٹ میں مروڑ اور معدے سمیت دیگر امراض، گیسٹرو، ٹائی فائیڈ اور ہیپا ٹائٹس اے کے پھیلاؤ میں اضافے کا سبب بھی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پانی کی نکاسی نہ ہونے کی وجہ سے جگہ جگہ جوہڑ بن چکے ہیں جن میں مکھیوں اور مچھروں سمیت دیگر بیکٹریا اور حشرات الارض کی افزائش ہو رہی ہے اور وہ شہریوں میں ملیریا سمیت دیگر الرجیز کے پیدا ہونے کا سبب بن رہے ہیں۔