بغداد (انٹرنیشنل ڈیسک) عراقی عدالت عظمیٰ نے ملک کے کردستانی حصے کی آزادی کے لیے ہونے والے ریفرنڈم کو معطل کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔ عدالت عظمیٰ کی جانب سے پیر کے روز جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ عدالت عظمیٰ نے 25 ستمبر کو کرائے جانے والے ریفرنڈم کو معطل کرنے کا حکم جاری کیا ہے، تاکہ عدالت کو اس ریفرنڈم کے غیر آئینی ہونے کے حوالے سے موصول ہونے والی درخواستوں کا جائزہ لیا جا سکے۔ عدالت عظمیٰ کے ترجمان آیس السموک نے ایک بیان میں کہا ہے کہ کردستان میں ریفرنڈم کے غیر آئینی ہونے سے متعلق کئی درخواستیں موصول ہوئی ہیں اور ان کی سماعت تک عدالت عظمیٰ نے استصواب رائے کے انعقاد کو روکنے کا حکم جاری کیا ہے۔ عام شہریوں کے علاوہ عراقی پارلیمان کے 3 ارکان نے بھی عدالت عظمیٰ میں کردستان میں آزادی ریفرنڈم کے انعقاد کو روکنے سے متعلق درخواستیں دائر کی ہیں اور ان میں یہ موقف اختیار کیا ہے کہ یہ ریفرنڈم غیر آئینی ہے،اس لیے اس کو روکا جائے۔ عراق کے پڑوسی ممالک ترکی اور ایران کے علاوہ امریکا اور اقوام متحدہ بھی خود مختار کردستان پر یہ زور دے رہے ہیں کہ وہ بغداد کے ساتھ اپنے اختلافات کو مذاکرات کے ذریعے طے کرے اور اس سے علاحدگی اختیار نہ کرے۔صرف اسرائیل واحد ملک ہے جو کردستان کی آزادی کے لیے اس ریفرنڈم کی حمایت کررہا ہے۔
عراقی کرد صدر مسعود بارزانی کا کہنا ہے کہ ریفرنڈم میں ’ہاں‘ میں ووٹ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ فوری طور پر عراق سے آزادی کا اعلان کردیا جائے گا، بلکہ اس کے بعد تو بغداد کے ساتھ سنجیدہ مذاکرات کا آغاز ہوگا۔ اس دوران برطانوی وزیر دفاع مائیکل فالن نے پیر کے روز کردستان کے دارالحکومت اربیل میں مسعود بازرانی کے ساتھ ملاقات کی ہے۔ ملاقات سے قبل انہوں نے کہا کہ وہ مسعود بارزانی کو متنازع ریفرنڈم سے دستبردار ہونے پر آمادہ کرنے کی کوشش کریں گے۔ انہوں نے بغداد میں ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ ہم عراق کی سالمیت چاہتے ہیں اور اقوام متحدہ کے ساتھ مل کر اس ریفرنڈم کے کسی متبادل حل پر بات چیت کررہے ہیں۔ اس سے قبل عراقی وزیراعظم حیدر العبادی یہ عندیہ دے چکے ہیں کہ کہ اگر اربیل حکومت نے ریفرنڈم کے نتائج مسلط کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کیا اور ریفرنڈم کے نتائج سے پھیلنے والی انارکی سے بقیہ قوموں کو نقصان پہنچا، تو کردستان کے خلاف عسکری مداخلت کی جائے گی۔ حیدرالعبادی نے خود مختاری کے حوالے سے منعقد کیے جانے والے ریفرنڈم کو غیر آئینی قرار دیا۔ عراقی وزیر اعظم نے باور کرایا کہ بغداد اس ریفرنڈم کے نتائج کو ہر گز قبول نہیں کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا موقف یہ ہے کہ یہ غیر آئینی اور غیر قانونی فیصلہ ہے، ریفرنڈم کے نتیجے میں کوئی ایسی چیز نہ ہو گی جس کو سنجیدگی سے لیا جائے۔ یہ ریفرنڈم واضح طور پر آئین کی خلاف ورزی ہے۔ اس کے ساتھ خود کردوں میں اس حوالے سے اختلاف پایا جا رہا ہے۔ میرے نزدیک یہ ایک بُری بلکہ انتہائی بُری حرکت ہے ۔