روم (انٹرنیشنل ڈیسک) گزشتہ ایک ہفتے کے دوران بحیرۂ روم میں لیبیا اور اٹلی کے ساحلوں کے قریب سے 5 ہزار تارکین وطن کو بچایا گیا ہے۔ اگرچہ حالیہ چند ماہ میں ہجرت کرنے والوں میں کمی واقع ہوئی ہے، تاہم غیر قانونی ہجرت اب بھی ختم نہیں ہوئی۔ لیبیا کے کوسٹ گارڈز نے گزشتہ ایک ہفتے کے دوران بحیرۂ روم میں 3 ہزار سے زائد پناہ کے متلاشیوں کو بچایا۔ اسی دوران اطالوی حکام نے بھی 2 ہزار کے لگ بھگ تارکین وطن کو ڈوبنے سے بچایا۔ ان امدادی کارروائیوں کئی تنظیموں نے بھی حصہ لیا۔ لیبیا کی بحریہ کے جنرل ایوب قاسم نے بتایا کہ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران زاویہ اور صبراتہ شہروں کے قریب سمندری علاقوں سے مہاجرین کو بچایا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ ہفتے پیر سے جمعہ کے دوران 2082 تارکین وطن کو بچایا گیا، جب کہ ہفتے کو مزید 1047 مہاجرین کو ڈولبنے سے بچایا گیا۔ جولائی کے وسط سے اب تک تقریباً ساڑھے 6 ہزار تارکین وطن اٹلی پہنچ چکے ہیں۔ اس تعداد کا اگر پچھلے 3 برس سے موازنہ کیا جائے، تو یہ ان تینوں برسوں میں اسی عرصے کے دوران یورپ پہنچنے والے تارکین وطن کی مجموعی تعداد کا 15 فیصد بھی نہیں بنتی۔ ادھر لیبیا میں انسانوں کے ایک سابق اسمگلر کی ملیشیا کے سرکاری افواج کے ساتھ جھڑپوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں، جن میں کم از کم ایک شخص ہلاک ہوا ہے۔
اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ متحدہ قومی حکومت کے حامی دستوں کے مطابق ایک مقامی ملیشیا کے 4 ارکان نے ایک سرکاری چیک پوائنٹ پر دھاوا بولا اور فوج کی جوابی کارروائی میں ملیشیا کا ایک رکن ہلاک اور 3 دیگر زخمی ہو گئے۔ متعلقہ ملیشیا کا سربراہ احمد دباشی ہے، جو ماضی میں انسانوں کی اسمگلنگ میں ملوث رہا ہے۔ صبراتہ لیبیا میں انسانوں کی اسمگلنگ کا گڑھ بن کر سامنے آیا ہے۔ دوسری جانب جرمنی میں پولیس نے موٹر وے پر ایک ٹرک کو روک کر تلاشی لی، تو اس کے ایک حصے سے 51 تارکین وطن برآمد ہوئے۔ جب کہ پولیس نے ترکی سے تعلق رکھنے والے ٹرک ڈرائیور کو انسانی اسمگلنگ کے الزام میں گرفتار کرلیا ہے۔ وفاقی جرمن پولیس کا کہنا ہے کہ ہفتے کی صبح جرمنی کے مشرقی حصے سے گزرنے والے موٹر وے پر ایک ٹرک کو روک کر اس کی تلاشی لی گئی، تو پولیس کو اس ٹرک کے پیچھے نصب کنٹینر کے ایک چھوٹے حصے میں 51 تارکین وطن ملے، جنہیں چھپا کر بٹھایا گیا تھا۔ ٹرک پر لدے سامان کے پیچھے مختصر حصے میں چھپائے گئے ان تارکین وطن میں 34 بڑوں کے علاوہ 17 بچے بھی موجود تھے۔ بڑوں میں 14 خواتین اور 20 مرد شامل تھے، جب کہ نابالغوں میں بھی 7 کم سن بچے اور 10 بچیاں تھیں۔
وفاقی جرمن پولیس کا کہنا ہے کہ جب ان تارکین وطن کو باہر نکالا گیا، تو اس وقت ان میں سے کئی کی حالت غیر ہو چکی تھی۔ گھنٹوں سے ٹرک میں چھپے مہاجر بچوں کے علاوہ کئی بالغ افراد بھی خوراک اور پانی کی قلت کے باعث نڈھال ہوچکے تھے۔ ٹرک سے نکالے جانے کے بعد ان تارکین وطن کو فوری طور پر فرینکفرٹ کے قریب ایک مقام پر منتقل کر دیا گیا، جہاں انہیں کھانے پینے کی اشیا کے علاوہ طبی امداد بھی فراہم کی گئی۔ جرمن حکام نے بتایا ہے کہ غیر قانونی طریقے سے جرمنی پہنچنے والے ان تارکین وطن کی اکثریت کا تعلق شورش زدہ ملک عراق سے ہے۔ اس کے علاوہ پناہ کے متلاشی ان افراد میں کم از کم ایک شخص نے ستمبر کے آغاز میں رومانیہ میں حکام کو سیاسی پناہ کی اپنی درخواست جمع کرائی تھی۔ برلن کی جانب روانہ اس ٹرک کا ڈرائیور ترک تھا اور یہ ٹرالر بھی ترکی ہی میں رجسٹرڈ تھا۔ پولیس نے ٹرک چلانے والے ترک شہری کو انسانوں کی اسمگلنگ کرنے کے الزام میں گرفتار کر کے تحقیقات شروع کر دی ہیں۔