نیپیداؤ (انٹرنیشنل ڈیسک) میانمر کی رہنما آنگ سان سوچی نے کہا ہے کہ اپنی حکومت کے روہنگیا بحران سے نمٹنے پر بین الاقوامی تحقیقات کا انہیں کوئی ڈر نہیں۔ منگل کے روز ریاست راکھین میں جاری ریاستی تشدد پر قوم سے اپنے پہلے خطاب میں سوچی نے کہا کہ زیادہ تر مسلمانوں نے صوبے سے نقل مکانی نہیں کی ہے۔ زیادہ تر مسلمان گاؤں موجود ہیں اور ہر شخص نے راہ فرار اختیار نہیں کیا ہے۔ ان کا یہ بھی گمان تھا کہ وہاں تشدد کا سلسلہ رک گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ یہ خطاب اس لیے کر رہی ہیں کہ وہ رواں ہفتے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شریک نہیں ہو رہی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ چاہتی ہیں کہ بین الاقوامی برادری یہ جان لے کہ ان کی حکومت حالات سے نمٹنے کے لیے کیا کر رہی ہے۔
آنگ سان سوچی نے انسانی حقوق کی تمام پامالیوں کی مذمت کی اور کہا کہ جو کوئی بھی اس کا مرتکب ہے، اس کو سزا دی جائے گی۔ جو لوگ راکھین میں تشدد کے ذمے دار ہیں، ان کا قانون کے تحت کارروائی کی جائے گا۔ تاہم سوچی نے یہ واضح نہیں کیا کہ اس تشدد کی ذمے داری فوج اور بدھ دہشت گردوں پر عائد ہوتی ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ یہ کیوں ہوا اور اس کے متعلق ہم نقل مکانی کرنے والوں سے گفتگو کے لیے تیار ہیں۔ راکھین میں جو کچھ ہوا اس کا میانمر کو شدید احساس ہے۔ ہم بنگلادیش جانے والے مسلمانوں کے بارے میں فکر مند ہیں۔ سوچی کا کہنا تھا کہ میانمر ایک پیچیدہ ملک ہے اور ہم تمام چیلنجز سے نمٹ لیں گے۔