زرداری بلیکیے نہیں مالک تھے

654

zc_Hashmiناصر حسین شاہ سندھ کے وزیر اطلاعات ہیں۔ اس لحاظ سے وہ باخبر ترین شخص ہوں گے اور ان کی اطلاعات مستند ترین ہوں گی۔ گزشتہ دنوں انہوں نے کراچی پریس کلب میں خطاب کرتے ہوئے ایک اہم انکشاف کیا کہ آصف زرداری سینما کے ٹکٹ بلیک نہیں کرتے تھے بلکہ وہ تو (بمبینو) سینما کے مالک تھے۔ ناصر حسین شاہ صاحب کبھی یہ تو بتا دیں کہ آصف زرداری کے والد حاکم علی زردای نے یہ سینما کیسے حاصل کیا، ان کے پاس رقم کہاں سے آئی۔ بمبینو سینما کے باہر آواز لگا کر ٹکٹ بلیک میں بیچنے کا یہ قصہ اس وقت کا ہے جب ناصر حسین شاہ شاید پیدا بھی نہ ہوئے ہوں ۔ خود آصف زرداری نے بمبینو سینما کی ملکیت کا دعویٰ نہیں کیا۔ ان کے والد سینما کے منیجر تھے جس کی وجہ سے اضافی ٹکٹ مل جاتے تھے۔ ویسے تو وہ لندن کے نہایت قیمتی سرے محل کی ملکیت کی بھی بڑے زور شور سے تردید کرتے رہے اور جو کوئی یہ کہتا تھا کہ یہ محل زرداری کا ہے تو موصوف اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ کہتے تھے کہ اچھا، اگر یہ میرا ہے تو بیچ کر آدھی رقم مجھے دے دیں۔ اور پھر یہ محل انہی کا نکلا اور بک بھی گیا، آدھی کے بجائے پوری رقم جناب زرداری کی جیب میں گئی۔



اب ممکن ہے کہ بمبینو سینما بھی بک چکا ہو۔ اس کی ملکیت حاصل کرنے کی داستان بھی دلچسپ ہے۔
ناصر حسین شاہ صاحب ذرا یہ تو بتائیں کہ اگر وہ سینما کے مالک تھے تو وہ انہوں نے کب اور کیسے خریدا۔ جب کا یہ قصہ ہے اس وقت تک تو ان کی شادی بی بی بے نظیر سے نہیں ہوئی تھی۔ اس کے بعد ہی ریل پیل شروع ہوئی۔ جہاں تک سینما کی ملکیت کا تعلق ہے تو ناصر شاہ نے آصف زرداری کے والد حاکم علی زرداری کا وہ ٹی وی انٹرویو نہیں دیکھا ہوگا جس میں انہوں نے وضاحت کی تھی کہ وہ بمبینو سینما کے مالک نہیں بلکہ روپے میں دو آنے (آٹھواں حصہ ) کے حصہ دار ہیں اور اس سے جو آمدنی ہوتی ہے اس سے دو گھر چلانے مشکل ہیں۔ چلیے، اسے بھی چھوڑیے، حاکم علی زرداری نے جب پیپلز پارٹی کے خلاف الیکشن لڑا تھا تو الیکشن کمیشن میں اپنے اثاثوں کی تفصیل بھی جمع کرائی تھی۔ وہ تفصیل نکال کر دیکھی جاسکتی ہے بشرطیکہ وہ ریکارڈ بھی غائب نہ کردیا گیا ہو۔ ناصر حسین شاہ سندھ کے وزیر اطلاعات ہیں وہ آسانی سے یہ ریکارڈ نکلوا سکتے ہیں۔ لیکن یہ بھی تو ریکارڈ پر ہے کہ حاکم علی زرداری نے خود کبھی سینما کا مالک ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔ پھر یہ آصف علی زرداری کی ملکیت میں کب آیا اور اس سے پہلے اس کا انکشاف کیوں نہیں ہوا۔ ٹکٹ بلیک کرنے کے الزامات تو برسوں سے لگ رہے ہیں ۔
آصف علی زرداری کے والد حاکم علی زرداری کوئی امیر کبیر شخص ، بڑے زمیندار یا تاجر نہیں تھے۔ پھر آصف علی زرداری کے پاس اتنی دولت کہاں سے آئی کہ سرے محل لندن کے علاوہ فرانس میں ایک تاریخی محل خرید لیا، لندن میں قیمتی فلیٹس اور پاکستان میں تو ان کی دولت اور جائداد کا کوئی شمار ہی نہیں ۔ بظاہر ان کا کوئی کاروبار بھی نہیں۔ برخوردار بلاول دوسروں پر کیچڑ اچھالتے ہیں کبھی اپنے والد سے بھی پوچھ دیکھیں کہ ان کے باس اس یہ دولت و جائداد کہاں سے آئی، فریال تالپور کیسے سیٹھانی بن گئیں۔ لیکن بلاول یہ بات نہیں پوچھیں گے، وہ پیڑگننے کے قائل نہیں، صرف پھل کھانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اور یہاں تو گٹھلیوں کے دام بھی لگ جاتے ہیں۔



اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جناب آصف علی زرداری اچھے جگت باز ہیں اور مزے کے جملے بولتے ہیں ۔ کچھ عرصہ پہلے انہوں نے ایک زبردست جملہ کہا کہ ’’عدلیہ سے لڑتا نہیں ان کے تھکنے تک ساتھ بھاگتا ہوں ‘‘۔ (29اگست، لاہور میں پریس کانفرنس) جملہ تو یقیناًبہت عمدہ ہے لیکن زرداری صاحب کو کسی نے نہیں بتایا کہ ساتھ ساتھ بھاگنے والے کو کیا کہا جاتا ہے۔ بہت سے لوگ ہم سے پوچھ چکے ہیں کہ ’’پخ‘‘ کا کیا مطلب ہوتا ہے۔ اب اگر ہم اس کی وضاحت کریں تو زرداری کے بقول ’’تھکنے والوں‘‘ تک بات پہنچے گی اور ہم بڑے سیاست دانوں کی طرح توہین عدالت کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ زرداری صاحب تو متعدد الزامات سے بری ہوتے چلے گئے حالاں کہ سرے محل کا معاملہ بالکل سامنے کا تھا۔ زرداری صاحب نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ’’ پیپلز پارٹی نے کبھی کرپشن نہیں کی‘‘۔ زرداری صاحب کہتے ہیں تو صحیح کہتے ہوں گے۔ آخر انہوں نے بہت طویل جیل کاٹی ہے۔ لیکن جیسی جیل انہوں نے کاٹی ہے، بڑے بڑے ملزموں کی آرزو ہے کہ انہیں بھی ایسی ہی قید نصیب ہو۔
آصف علی زرداری جب جیل میں تھے تو وزیر اعلیٰ جام صادق نے میاں بیوی کی ملاقات کا خصوصی اہتمام کیا اور زرداری صاحب ایک بیٹی کے باپ بن گئے تھے۔ اس وقت کئی قیدیوں کی بیویوں نے مطالبہ کیا تھا کہ ہمیں بھی یہ سہولت دی جائے۔ جیل کا زیادہ عرصہ آصف زرداری نے ڈاکٹر عاصم کے کلفٹن والے اسپتال میں اس ٹھاٹھ سے گزارا کہ ہر قسم کی سہولتیں فراہم کی جاتی تھیں۔ ڈاکٹر عاصم کا احسان تو اتارنا ہے۔ بمبینو سینما کے پارسی مالک کے سینما اور گھر کی ملکیت کے کاغذات پر انگوٹھے لگوا کر کچھ لوگ مالک بن بیٹھے۔ لیکن بات یہ ہے کہ ثابت کون کرے گا۔ صرف یہی پوچھا جاسکتا ہے کہ رقم کہاں سے آئی۔ لیکن اس کا بھی کیا فائدہ۔