آرمی چیف کا عزم اور اندر کے غدار

624

آرمی چیف جنرل جاوید قمر باجوہ کا یہ اعلان کہ وہ پاکستان کے باہر بیٹھے ان تمام افراد کو ملک میں لاکر عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کریں گے جو پاکستان سے باہر بیٹھ کر پاکستان توڑنے، آرمی کو بدنام کرنے اور پاکستان مخالف مہم چلانے میں مصروف ہیں۔ یہ بات بہت خوش آئند ہے اور اہل پاکستان کے لیے ایک بہت بڑی خوش خبری اور مخالفین کے لیے ایک وارننگ ہے کہ وہ یا تو پاکستان مخالف سرگرمیوں سے توبہ کرلیں یا پھر سزا کے لیے تیار ہوجائیں بصورت دیگر ان کو انجام کار سخت قانونی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انہوں نے اپنے اس عزم کو دہرایا کہ وہ قانون کی حکمرانی چاہتے ہیں اور ہر قسم کے تخریب کاروں اور دہشت گردوں کا خاتمہ کرکے ہی دم لیں گے۔
خواجہ آصف نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ہمیں پہلے اپنے گھر کو صاف کرنا ہوگا، ان کی اس بات کو خود انہی کی پارٹی کے سابق وزیرداخلہ، چودھری نثار نے شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے جگ ہنسائی قرار دیا لیکن ملک کے کچھ تجزیہ اور تبصرہ نگاروں نے خواجہ آصف کی اس بات کو پسند بھی کیا کہ پہلے گھر کی صفائی زیادہ ضروری ہے۔ مجھے ذاتی طور پر ’’گھر کی صفائی‘‘ والی بات کچھ اچھی نہیں لگی اس لیے کہ اپنے ہی منہ سے اپنی ہی کمیوں اور کوتاہیوں کو تسلیم کرلینا کسی بھی لحاظ سے اچھا نہیں لیکن آج ہونے والی ایک ایسی بات جو اب عدالت تک جا پہنچی ہے، مجھے اپنے پہلے خیال اور رائے کو بدلنے پر مجبور کر رہی ہے اور میں اس بات کا قائل ہوتا جارہا ہوں کہ واقعی (اگر یہ درست ہے تو) پہلے صفائی کا آغاز گھر ہی سے کیا جائے ورنہ معاملات بہت سنگین صورت حال اختیار کر سکتے ہیں۔



انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے ایک جاسوس نے اپنے ہی ادارے پر دہشت گردوں کے تحفظ کا الزام عائد کردیا۔ آئی بی کے موجودہ سب انسپکٹر اے ایس آئی ملک مختار احمد شہزاد نے اپنے سینئر افسران پر دہشت گردوں کے خلاف کارروائی نہ کرنے کا الزام لگاتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کی، جس میں درخواست کی گئی کہ اس معاملے کی تحقیقات انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سپرد کی جائیں۔
ڈان نیوز نے رپورٹ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکام نے بتایا کہ عدالت عالیہ کے رجسٹرار نے مذکورہ پٹیشن جسٹس عامر فاروق کی عدالت میں سماعت کے لیے بھیجی تھی تاہم انہوں نے یہ کیس عدالت عالیہ کے چیف جسٹس محمد انور خان کاسی کو بھیج دیا تاکہ اسے جسٹس عزیز صدیقی کو منتقل کیا جائے کیونکہ ایسا ہی ایک کیس ان کی عدالت میں زیر التوا ہے۔
ملک مختار احمد شہزاد نے اپنے وکیل مسرور شاہ کے ذریعے دائر کی گئی پٹیشن میں کہا کہ انہوں نے 2007 میں آئی بی میں ملازمت اختیار کی جس کے بعد سے انہوں نے ازبکستان، ایران، افغانستان، شام اور بھارت سے تعلق رکھنے والے متعدد دہشت گردوں کے حوالے سے رپورٹیں پیش کیں، تاہم ان کی خفیہ رپورٹوں پر آئی بی کی جانب سے کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔ انہوں نے الزام لگایا کہ ’’متعدد خفیہ معلومات کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ آئی بی کے کچھ اعلیٰ افسران خود بھی دشمن ایجنسیوں سے منسلک دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ رابطے میں ہیں‘‘۔ درخواست گزار کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس معاملے کے حوالے سے آئی بی کے ڈائریکٹر کو بھی آگاہ کیا گیا تاہم انہوں نے اس حوالے سے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ پٹیشن میں دعویٰ کیا گیا کہ کچھ آئی بی افسران نے اسرائیل کا دورہ کیا اور ان کے افغان انٹیلی جنس ایجنسیوں سے براہ راست رابطے ہیں، اور بعد میں معلوم ہوا کہ ان کے قازقستان کے دہشت گرد گروپوں سے بھی رابطے ہیں۔ درخواست گزار کا مزید یہ بھی کہنا تھا کہ ’’یہ دہشت گرد سرگودھا کے علاقوں کوٹ مومن اور بھلوال میں خود کو پھلوں کے خریدار ظاہر کرکے کام کررہے ہیں اور یہ خفیہ سرگرمیاں اس کاروبار کی آڑ میں کی جارہی ہیں‘‘۔ انہوں نے الزام لگایا کہ آئی بی پنجاب کے جوائنٹ ڈائریکٹر کے صاحبزادے نشان دہی کیے جانے والے دہشت گرد گروپوں کے ساتھ معاملات چلا رہے ہیں۔ پٹیشن میں دعویٰ کیا گیا کہ کچھ افغان اور ایرانی انٹیلی جنس حکام پھلوں کے ڈیلرز کے بھیس میں کام کررہے ہیں۔ یہی نہیں، پٹیشنر نے آئی بی کے کچھ افسران کے نام بھی بتائے جو غیر ملکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے پے رول پر کام کررہے ہیں، ان میں جوائنٹ ڈائریکٹر جنرل، ڈائریکٹرز اور ڈپٹی ڈائریکٹرز بھی شامل ہیں۔ درخواست گزار کا کہنا تھا کہ کچھ سینئر آئی بی افسران نے افغان شہریوں کو پاکستانی شہریت دلوانے میں بھی سہولت فراہم کی۔ آئی بی کے سب انسپکٹر کا کہنا تھا کہ انہوں نے قومی سلامتی اور شہریوں کے تحفظ کے لیے وزیراعظم پاکستان کو بھی آگاہ کرنے کی کوشش کی تھی تاہم اس پر کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی‘‘۔ درخواست گزار نے عدالت سے استدعا کی کہ آئی بی افسران کے دہشت گردوں سے روابط کے معاملے کی تحقیقات آئی ایس آئی کے سپرد کی جائیں۔ پٹیشن میں مزید کہا گیا کہ وزیراعظم کو ہدایات جاری کی جائیں کہ وہ آئی بی افسران پر نگرانی کا مؤثر طریقہ کار وضح کریں، جو فرقہ وارانہ دہشت گردی میں ملوث ہیں۔
یہ بات ممکن ہے ’’ہوائی‘‘ ہی ہو اور ان سب باتوں کا تعلق محض ’’آئی بی‘‘ کو بدنام کرنا یا بیجا تنقید کا نشانہ بنانا ہی رہا ہو۔ اس سلسلے میں اس امکان کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ بعض اوقات اس قسم کی تحریک کسی بڑے مسئلے کو دبانے کے لیے بھی چلائی جاتیں ہیں کیونکہ حال ہی میں آئی بی کو اُس وقت بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا جب سابق وزیراعظم نواز شریف کے خاندان کے اثاثوں کی تحقیقات کے لیے آئی ایس آئی، ایم آئی اور دیگر اداروں کے ارکان پر مشتمل مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی گئی تھی۔ آج پھر سابق وزیر اعظم نواز شریف کو عدالتوں کا سامنا ہے۔ لیکن ان سب کے باوجود اس بات کو کسی طور آسان نہیں لینا چاہیے یا ہلکا سمجھ کر اس سے چشم پوشی نہیں کر نی چاہیے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اکثر ایسے معاملات کے پس پشت بڑی بڑی بااثر شخصیات ہوتی ہیں جس کا بین ثبوت یہ ہے کہ عدالتوں کی بھاری فیسیں بھرنا اور اپنی نوکری کو داؤ پر لگا دینا کسی عام فرد کے بس میں کہاں۔ ہماری عدالتوں کے متعلق اب یہ بات زبان زدِعام ہوتی جارہی ہے کہ عدالتوں سے انصاف حاصل کرنے کے لیے ’’صبر ایوبؑ ، عمر نوحؑ اور قارون کا خزانہ‘‘ بھی کم ہے، ایسے میں کسی ایسے فرد کا اتنی بڑی بات کہہ دینا اور پھر اس کو عدالتوں تک لے کر جانا معنی رکھتا ہے۔ بہر کیف یہ بات ہے بہت تشویشناک ہے۔
حال ہی میں اسلام آباد جیسے علاقے میں جہاں قدم قدم پر سیکورٹی کے شدید انتظامات ہیں، پورے شہر میں خفیہ کیمرے نصب ہیں اور ہر جانب نادیدہ آنکھیں ایک ایک حرکت پر بھرپور نظر رکھے ہوئے ہیں وہاں ’’داعش‘‘ کے پرچم لہرا جانا اور پوسٹر لگ جانا کوئی مذاق کی بات نہیں۔ پوسٹر کوئی بھی لگا سکتا ہے، یہ شاید بہت اچھنبے کی بات نہ ہو لیکن اس کی سیکورٹی والوں کو کان و کان خبر نہ ہو؟، یہ ایک بہت ہی چونکا دینے والی بات ہے۔ اندازہ لگائیے کہ اس کی خبر بھی کسی شہری نے دی کہ ’’خلافت آرہی ہے‘‘۔ کاش یہ بات اداروں کو خود ہی ہوجانی چاہیے تھی۔ پھر ایک اور المیہ یہ ہوا کہ جس محب وطن پاکستانی نے یہ اطلاع دی اس کو ادارے بجائے اس کے کہ انعام دیتے، اٹھا کر لے گئے اور تا دم تحریر یہ بات سامنے نہیں آئی کہ وہ رہا کر دیا گیا ہے یا اب شاید وہ بھی ’’گمشدہ‘‘ کر دیا گیا ہے۔
پاکستان کے خلاف باہر بیٹھ کر بکواس کرنے والے بے شک لائقِ سزا ہیں لیکن ہم آرمی چیف جنرل جاوید قمر باجوہ سے گزارش کریں کہ وہ پاکستان میں موجود، بلکہ اہم اداروں میں گھس کر کام کرنے والی ان کالی بھیڑوں کے خلاف نہایت برق رفتاری کے ساتھ قانون کو حرکت میں لائیں جو نہ صرف اداروں کے لیے بلکہ ملک و قوم کے لیے بہت بڑی تباہی و ہلاکت کا سبب بن سکتی ہیں۔ اگر ہم صرف باہر والوں پر ہی فوکس رکھیں گے اور گھر میں موجود غداروں اور کالی بھیڑوں کا قلع قمع نہیں کریں گے تو اس کا ذرہ برابر بھی کوئی فائدہ پاکستان کو نہیں ہوگا۔