مجھے ہے حکم اذاں

433
مجھے ہے حکم اذاں
مجھے ہے حکم اذاں

پاک فوج کے لیفٹیننٹ ارسلان ستی شمال مغربی پاکستان کے علاقے راج گال میں دشمن کی فائرنگ سے اپنے مورچے پر شہید ہو گئے۔ بائیس سالہ لیفٹیننٹ ارسلان عالم سرحد پار افغانستان کے علاقے سے حملہ کرنے والے دہشت گردوں نے نشانہ بنایا ارسلان ستی نے پاک فوج کے لانگ کورس 135 میں تربیت پائی تھی۔ شہید تین بہنوں کے اکلوتے بھائی تھے بائیس سال کی عمر میں شہادت پائی‘ یہ عمر تو خواب دیکھنے کی عمر ہے۔ اس عمر میں موت کا سامنا کرنا اور شہادت کی موت پانا کسی اعزاز سے کم نہیں۔ زندگی ہر کسی کو عزیز ہوتی ہے، شہید ارسلان کے آخری لمحوں میں لی گئی ایک تصویر شیئر کی گئی ہے جس میں لیفٹیننٹ ارسلان زمین پر چت لیٹے ہیں اور تین فوجی جوان انہیں ابتدائی طبی امداد دے رہے ہیں انہیں زخمی حالت میں بہتر علاج کے لیے ہیلی کاپٹر کے ذریعے پشاور لایا گیا مگر وہ جاں بر نہ ہو سکے‘ درست ہے اے پتر ہٹاں تے نئیں وکدے‘ توں لب دی پھرے بازار کڑے‘ صوفی تبسم واقعی میں بہت بڑے استاد تھے جو جانتے تھے کہ پتر ہٹاں تے نئیں وکدے‘ پاکستان نے ارسلان جیسے ہزاروں شہید دیے ہیں‘ جنہوں نے سرحدوں کی حفاظت میں اپنی جان دی ہے ہر شہید بہادری اور جرأت کی ایک داستان ہے‘ ہر جنگ کا ایک بیانیہ ہوتا ہے ہماری اس جنگ کا بیانیہ ہے کہ پاکستان ہر قسم کی دہشت گردی کے خلاف ہے اور اپنی سرزمین پر کسی کو ایسی اجازت نہیں دے سکتا۔

نائین الیون کے بعد ہمیں مشرقی سرحد کے ساتھ ساتھ شمال مغربی سرحد پر ایک جنگ کا سامنا ہے اور پاکستان بار بار کہہ رہا ہے کہ ہم اپنی زمین کی رکھوالی کرنا جانتے ہیں، وہ کسی دوسرے کے لیے دکھ اور اذیت کی خواہش نہیں کر سکتے لیفٹیننٹ ارسلان نے اپنی جان کا نذرانہ دے کر امن کے بیانیے کو آگے بڑھایا ہے۔ امن کے دشمنوں کو پیغام دیا ہے کہ ہم زندگی سے محبت کرتے ہیں اور وطن کی حفاظت کے لیے جان دینے میں بھی عار نہیں سمجھتے۔ یہ قربانی کی عظیم ترین صورت ہے اور ایسی قربانی امن چاہنے والے دیا کرتے ہیں۔ لیفٹیننٹ ارسلان سرحد پار سے حملہ آور ہونے والے جنگجووں کی گولی کا نشانہ بنے ہیں، سرحد پار سے آنے والوں سے نمٹنا ہم خوب جانتے ہیں۔ دنیا کا ہر سپاہی بندوق تھام کر مورچے میں بیٹھتا ہے تو اپنے گھر کا رکھوالا ہوتا ہے۔ ارسلان شہید بھی گھر کا رکھوالا تھا اپنا گھر کسے پیارا نہیں ہوتا‘ اور فوجی تو سرحد پر لڑتا ہے جو گھر کی حفاظت کا پہلا مورچہ ہے ایک زمانہ تھا کہ ہمارا دشمن سامنے تھا‘ بڑا ہی واضح تھا‘ اور ہمیں علم تھا کہ وہ کون ہے لیکن آج صورت حال بدلی ہوئی ہے دشمن کا صاف پتا نہیں ہے‘ ایسے دشمن کے مقابلے کے لیے تیاری اعلیٰ درجے اور کمال کی حکمت عملی کے ساتھ کرنا ہوتی ہے‘ یہ تیاری کر رکھی ہے اسی لیے تو شمال مغربی سرحد پر موچے لگے ہوئے ہیں‘ مشرقی سرحد کا دشمن اپنی جگہ چھوڑ کر یہاں آچکا ہے‘ چھپا بیٹھا ہے کسی کی بندوق اور کسی کا کندھا استعمال کر رہا ہے ہمیں اس کندھے اور بندوق کو پہچاننا ہے اس کی شناخت کرنی ہے اس کی شناخت میں کوئی غلطی بھی نہیں کرنی‘ ضرب عضب کے بعد آپریشن رد الفساد انہی کے خلاف جاری ہے، عزم یہ ہے کہ لیفٹیننٹ ارسلان پر گولی چلانے والوں اور ان کے ساتھ ہمدردی رکھنے والوں پر سانس لینا مشکل بنادیا جائے گا۔ ہمارا ملک پاکستان ہے ہمارے ملک کا نام اور آئین بدلنے والے ہماری قوم پر اپنا بیانیہ اور آئین مسلط کرنا چاہتے ہیں پاکستان کا بیانیہ امن، رواداری، جمہوریت، ترقی اور خیر سگالی ہے ہماری ریاست نے بار بار اعلان کیا ہے کہ ہم انتہا پسندی اور دہشت گردی کا بیانیہ تسلیم نہیں کرتے۔ ہمیں پاکستان کے نام سے دہشت گردی کا بیانیہ منسوب کرنا قبول نہیں۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں یہی موقف اختیار کیا ہے۔ آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے دو روز قبل ملکی دفاع کے عہد کی تجدید کی ہے اور لیفٹیننٹ ارسلان عالم نے بائیس برس کی عمر میں اپنے لہو کا خراج دے کر بتایا ہے کہ نفرت، جھوٹ اور دشمنی کا بیانیہ ہمارا نہیں ہے اور ہم اسے اپنے اوپر مسلط بھی نہیں ہونے دیں گے اسے بدل دیں اور مسترد کر دیں گے اور مسترد کر رہے ہیں۔