بغداد (انٹرنیشنل ڈیسک) عراق میں کردوں کے زیر انتظام علاقوں کے رہائشیوں کی اکثریت نے متنازع ریفرنڈم میں آزادی کے حق میں ووٹ دیا ہے۔ انتخابی کمیشن کا کہنا ہے کہ پیر کے روز عراقی کردستان کی آزادی کے لیے ہونے والے ریفرنڈم میں 33 لاکھ کرد اور غیر کردوں نے ووٹ ڈالا اور نتائج کے مطابق 92 فیصد نے آزادی کے حق میں فیصلہ دیا۔ انتخابی کمیشن کے حکام نے اربیل میں نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ریفرنڈم میں ووٹ ڈالنے کی شرح 72.61 رہی جس میں 28 لاکھ 61 ہزار نے ہاں جبکہ 2 لاکھ 24 ہزار نے نہیں کے حق میں ووٹ ڈالا۔ دوسری جانب عراقی پارلیمان نے وزیر اعظم سے کرکوک شہر اور کرد فورسز کے زیر انتظام دیگر متنازع علاقوں میں عراقی سیکورٹی فورسز کو تعینات کرنے کے علاوہ مسعود بارزانی کے خلاف ملک توڑنے کی سازش کے الزام میں مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا ہے ۔ عرب ٹی وی کے مطابق عراقی پارلیمان میں کردستان میں کرائے گئے آزادی ریفرنڈم پر گرما گرم بحث کی گئی۔ جس میں حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ مختلف ملکوں کے سفیروں بات کرے اور کردستان میں موجود تمام تمام نمائندہ دفاتر (باقی صفحہ 9 نمبر 2)
اور قونصل خانے بند کیے جائیں۔ عراقی پارلیمان نے مطالبہ کیا کہ تیل کے وسائل کی وجہ سے مشہور کرکوک شہر کو کردستان سے واپس لیا جائے اور اسے وفاق میں شامل کیا جائے ۔
عراقی پارلیمان میں منظور ہونے والی ایک قرارداد میں حکومت سے 13 مطالبات کیے گئے جن میں کرکوک اور شمالی عراق میں موجود تیل کی تمام تنصیبات واپس لینے اور ملک میں تیل کے تمام ذخائر اور وسائل کو بغداد سرکار کے قبضے میں رکھنے پر زور دیا گیا۔ پارلیمان نے مطالبہ کیا کہ حکومت سیکورٹی اداروں کو وبارہ کرکوک اور دیگر متنازع علاقوں میں داخل کرے ۔ کردستان کی تمام بیرونی بری راہ داریوں کو بند اور فضائی سروس روکی جائے۔ نیز کردستان میں ہونے والے آزادی ریفرنڈم کے نتائج مسترد کرتے ہوئے ان پر کسی بھی طرف عمل درآمد کی کوششوں کو ناکام بنایا جائے۔ قبل ازیں عراقی وزیراعظم حیدر العبادی نے ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ کردستان پر فوجی طاقت نہیں بلکہ آئینی اور دستوری طاقت سے احکامات نافذ کریں گے۔ انہوں نے ایک بار پھر کرد قیادت پر زور دیا کہ وہ آزادی کے لیے کرائے گئے نام نہاد ریفرنڈم فوری طور پر منسوخ کردے۔ واضح رہے کہ عراق کے علاوہ ایران اور ترکی کو خدشہ ہے کہ اس ریفرنڈم کی وجہ سے اس کے اپنے علاقوں میں موجود کرد علاحدگی پسندوں کے جذبات بھڑک سکتے ہیں۔ دوسری جانب عراقی کردستان کے علاقائی دارا لحکومت اربیل کے بین الاقوامی ہوائی اڈے سے متنازع آزادی ریفرنڈم کے ردعمل میں بغداد حکومت کے حکم پر آج شام سے تمام غیرملکی پروازوں کی آمد ورفت باضابطہ طور پر بند کی جارہی ہے، تاہم بیرون ملک پروازیں گزشتہ روز ہی معطل ہوگئیں ہیں۔ اربیل کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کی ڈائریکٹر تالار فائق صالح نے جمعرات کے روز ایک بیان میں بتایا ہے کہ عراقی کابینہ اور وزیراعظم حیدر العبادی کے فیصلے کے بعد کسی استثنا کے بغیر اربیل آنے اور وہاں سے جانے والی تمام بین الاقوامی پروازیں جمعہ کی شام مقامی وقت کے مطابق چھ بجے سے بند کردی جائیں گی۔ بغداد کی حکومت کی درخواست پر 3 علاقائی فضائی کمپنیوں ترکش ائر لائنز ، مصر ائر اور لبنان کی مڈل ایسٹ ائر لائنز نے پہلے ہی عراقی کردستان کے لیے اپنی پروازیں معطل کرنے کا اعلان کردیا ہے ۔ اربیل ائرپورٹ کی ڈائریکٹر نے کہا ہے کہ انہیں اس فیصلے پر بہت افسوس ہے ۔اس سے شام اور عراق میں داعش کے خلاف جاری جنگی مہم اور متاثرین کے لیے امدادی سامان کی تقسیم کے عمل پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے یہاں دوسرے ممالک کے قونصل خانے ہیں، بین الاقوامی عملہ اور کمپنیاں ہیں ۔اس لیے اس فیصلے سے ہرکسی پر اثرات مرتب ہوں گے اور یہ کوئی اچھا فیصلہ نہیں ہے ۔یہاں ایک بڑی بین الاقوامی کمیونٹی بھی رہ رہی ہے ،اس لیے یہ صرف کردعوام کے خلاف نہیں ہے۔ تالار صالح کا کہنا تھا کہ مہاجرین کی کثیر تعداد اربیل کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کو استعمال کرتی ہے اور ہم شام اور اقوام متحدہ کے درمیان متاثرہ جگہوں تک امدادی سامان پہنچانے کے لیے ایک پُل کا بھی کردار ادا کرتے ہیں۔ ہم امریکا کی قیادت میں داعش مخالف اتحاد میں شامل فورسز کی بھی میزبانی کررہے ہیں۔اس لیے یہ ائر پورٹ سب کے لیے ہے۔قبل ازیں عراق کی شہری ہوابازی کی اتھارٹی نے بدھ کو غیر ملکی فضائی کمپنیوں کو ایک نوٹس بھیجا تھا اور اس میں خبردار کیا گیا تھا کہ کردستا ن کے 2 شہروں اربیل اور سلیمانیہ کے لیے جمعہ سے بین الاقوامی پروازیں معطل کردی جائیں گی اور ان شہروں کے درمیان صرف اندرون ملک پروازیں ہی چل سکیں گی۔
کردستان ؍ فوج