طب کی تعلیم عام اور سستی ہونی چاہیے‘ خاقان وحید خواجہ

746

میڈیکل کالجز میں نشستیں کم ہونے کے باعث سالانہ تقریباً ڈیڑھ لاکھ طلبہ داخلوں سے محروم رہ جاتے ہیں‘ معیاری تعلیمی سہولیات فراہم کرکے طلبہ کو بیرون ملک جانے سے روکا جا سکتا ہے
امیدوار کے لیے میٹرک اور ایف ایس سی کے نمبرز کی شرح 50 فیصد کی جائے‘ پی ایم ڈی سی مطالبات پورے کرے تو ہم طلبہ کو میرٹ پر داخلہ دے کر مفت تعلیم دینے کے لیے تیار ہیں
پاکستان ایسوسی ایشن آف پرائیویٹ میڈیکل اینڈ ڈینٹل انسٹی ٹیوشن کے سیکرٹری جنرل اور راول انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ سائنسز کے چیئرمین کا خصوصی انٹرویو

سوال: نجی میڈیکل کالجز کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ مافیا بن چکے ہیں‘ فیسیں زیادہ لیتے ہیں اور قواعد کی پابندی نہیں کرتے۔ کیا یہ الزامات درست ہیں اور اس حوالے سے اپ کا نقطہ نظر کیا ہے کہ نوبت یہاں تک کیوں پہنچی کہ نجی میڈیکل کالجز کو مافیا کہا جارہا ہے؟
جواب: بہت شکریہ‘ اس سوال کے جواب میں پہلے تو ہمیں اپنے بارے میں پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کو دور کرنے کا موقع ملے گا۔ سب سے پہلی اور بنیادی بات یہ کہ ہم نجی میڈیکل کالجز مافیا نہیں ہیں۔ ہمارا یہ موقف ایک روشن سچائی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ملک میں طب کی تعلیم عام اور سستی ہو اور ملک میں ہی سہولتیں مہیا کی جائیں تاکہ طلبہ بیرون ملک تعلیم کے لیے نہ جاسکیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت اور پی ایم ڈی سی میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کا مستقبل بہتر بنانے کے لیے میڈیکل کالجز میں نشستیں بڑھانے کی اجازت دے۔ ہمارا اندازہ ہے بلکہ مشاہدہ بھی ہے ہر سال ملک میں کم و بیش ڈیڑھ لاکھ طلبہ میڈیکل کالجز میں داخلے کے لیے انٹری ٹیسٹ میں شامل ہوتے ہیں لیکن میڈیکل کالجز میں نشستیں کم ہونے کی وجہ سے ایک لاکھ 32 ہزار طلبہ میڈیکل کالجز میں داخلوں سے محروم رہ جاتے ہیں، جو اپنی خواہش پوری کرنے کے لیے بیرون ملک جاکر وہاں کے تعلیمی اداروں میں داخلہ لینے پر مجبور ہوتے ہیں اور یہ خاصا مہنگا بھی ہوتا ہے، اس میں ملک کازرمبادلہ بھی خرچ ہوتا ہے۔ یہ زرمبادلہ بچانے کے لیے ملک کے اندر کام کرنے والے میڈیکل کالجز میں نشستیں بڑھانے کی اجازت دی جانی چاہیے۔ ایسے طلبہ کو ہم میرٹ پر داخلہ دے کر مفت تعلیم دینے کو تیار ہیں۔ پی ایم ڈی سی ایسے طلبہ کے لیے مقامی میڈیکل کالجز میں نشستوں کی تعداد 100 سے بڑھا کر 150 کرے اور ان اضافی طلبہ کو میرٹ پر داخلہ دے کر ہم مفت تعلیم دینے کے لیے بھی تیار ہیں اور امیدوار کے لیے میٹرک اور ایف ایس سی کے نمبرز کی شرح 50 فی صد کی جائے اور 50 فی صد نمبر انٹری ٹیسٹ کے ہونے چاہییں۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ملک میں ہر سال 14 ہزار طلبہ کو نجی اور سرکاری میڈیکل کالجز میں داخلہ دینے کی گنجائش ہے اور ہر سال ایک لاکھ 20 ہزار طلبہ‘ اگر وہ داکٹر ہی بننا چاہتے ہیں تو انہیں بیرون ملک تعلیمی اداروں میں داخلے کے لیے رجوع کرنا پڑتا ہے یا اگر وہ یہ پروفیشن اختیار نہیں کرنا چاہتے تو انہیں دوسری تعلیمی ترجیحات کی طرف جانا پڑتا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ انٹری ٹیسٹ بھی ختم کیا جائے اور نجی میڈیکل کالجز میں داخلوں کی تعداد بھی 100 سے بڑھا کر 150 کر دی جائے۔
سوال: ملک میں کام کرنے والے نجی میڈیکل کالجز کو مافیا کہا جاتا ہے کہ یہ عطیات لیتے ہیں‘ داخلے دیتے ہیں اور قواعد کی پروا بھی نہیں کرتے، کیا یہ سچ ہے؟
جواب: ہم تو عطیات نہیں لیتے ‘ یہ بالکل سیدھی اور صاف بات ہے۔ میری گزارش ہے کہ نجی میڈیکل کالجز کو مافیا نہ کہا جائے یہ تعلیمی ادارے ملک میں ڈاکٹرز کی کمی پوری کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں اور یہ تعلیمی دارے پی ایم ڈی سی کے بنائے ہوئے قواعد کے مطابق ہی کام کر رہے ہیں۔ اگر ملک میں میڈیکل کالجز میں نشستیں بڑھا دی جائیں تو اس سے بیرون ملک جانے سے بھی طلبہ کو روکا جاسکے گا اور ان کی فیسوں کی صورت میں دیے جانے والے بھاری زرمبادلہ کی بھی بچت ہوگی۔ اضافی 50 نشستوں کے لیے باقاعدہ کوئی کوٹہ بنایا جاسکتا ہے، اس میں جرنلسٹ‘ کسانوں‘ لیبر اور صوبائی اور وفاقی محکموں کے ملازمین کے بچوں کو میرٹ پر داخلہ دیا جاسکتا ہے۔
سوال: پی ایم ڈی سی کے قواعد پر بھی اعتراضات ہیں، تو پھر آپ کی بات اُن کے ساتھ کیسے ہوگی؟
جواب: ہم پی ایم ڈی سی کے ہر قانون کو مانتے اور تسلیم کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود ہمیں ہدف بنایا جاتا ہے۔ اگر حکومت پالیسی بنائے تو ہم نجی میڈیکل کالجز دیہاتوں میں قائم بنیادی ہیلتھ یونٹس کو بھی بہترین انداز میں فعال بناسکتے ہیں اور وہاں اپنے فائنل ایئر کے طلبہ کو ہائوس جاب کے لیے بھی بھجوایا جاسکتا ہے۔
سوال: کیا یہ بات درست ہے کہ میڈیکل کالجز اپنے اسپتال کے نام پر مشینری منگواتے ہیں اور مارکیٹ میں فروخت کرتے ہیں؟
جواب: میڈیکل کالجز کی انتظامیہ کالجز کے لیے جو بھی مشینری منگواتی ہے اس پر وہ حکومت کو باقاعدہ ٹیکس اور ڈیوٹی ادا کرتی ہیں اور کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ ڈیوٹی یا کوئی اور قانونی ٹیکس معاف کرایا گیا ہو۔
سوال: نجی میڈیکل کالجز میں داخلے کے لیے اور سرکاری میڈیکل کالجز میں داخلے کے لیے انٹری ٹیسٹ ہوتا ہے۔ یہ کیوں ضروری ہے؟ اس بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟ ایک رائے یہ ہے کہ یہیں سے خرابی کی بنیاد ڈالی جاتی ہے؟
جواب: یہ بات درست ہے اور میں بھی اس بات سے متفق ہوں کہ انٹری ٹیسٹ ختم ہونا چاہیے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ میڈیکل کالجز میں داخلے کے خواہش مند طلبہ کے لیے انٹری ٹیسٹ کی شرط ختم کی جائے۔ اس سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں اور یہی کام کرپشن کا بھی باعث بن رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت کسی بھی میڈیکل کالج میں داخلے کے لیے امیدوار کے میٹرک اور ایف ایس سی کے نمبرز کے علاوہ انٹری ٹیسٹ کے نمبر ز بھی میرٹ بناتے ہوئے مد نظر رکھے جاتے ہیں۔ جبکہ یہ پالیسی درست نہیں ہے۔ اسی انٹری ٹیسٹ کی وجہ سے ملک میں اکیڈمیاں کھل گئی ہیں جو 2 ماہ میں طلبہ کو تیاری کراتی ہیں اور بھاری فیس لی جاتی ہے اور یہی اکیڈمیاں پیپزز آئوٹ کرنے کا سبب بن رہی ہیں۔ پیپر آئوٹ کرنے میں بھی اور کرپشن میں بھی یہی اکیڈمیاں ملوث ہیں۔
سوال: کیا میڈیکل کالجز کے اساتذہ کے لیے بھی کوئی معیار ہے اور کیا سرکاری میڈیکل کالجز میں اساتذہ کی تعداد پی ایم ڈی سی کے قواعد کے مطابق ہے؟
جواب: اس وقت ملک میں ہر سرکاری میڈیکل کالج میں اساتذہ کی تعداد طے شدہ تعداد سے بہت کم ہے۔ آپ کسی بھی سرکاری میڈیکل کالجز میں اساتذہ کی تعداد کا جائزہ لے لیں، ہر کالج میں مطلوبہ تعداد سے کم اساتذہ ہیں لیکن اس کے باوجود پی ایم ڈی سی ان کے بارے میں نرم گوشہ رکھتی ہے اور سارا ملبہ نجی میڈیکل کالجز پر ڈالا ہوا ہے۔ یہ ایک غلط اور نا انصافی پر مبنی رویہ ہے ہم پی ایم ڈی سی کے ہر قانون کو مانتے اور تسلیم کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود ہمیں ہی ہدف بنایا جا رہا ہے۔