بیان اور عمل دونوں کی تبدیلی ضروری ہے

730

غزالہ عزیز
اسٹیفن پیڈک 64 سالہ وہ مالدار شخص ہے جس نے پچھلے دنوں لاس ویگاس میں کنسرٹ پر فائرنگ کرکے کم از کم ساٹھ لوگوں کو قتل اور سیکڑوں کو زخمی کیا، امریکی سراغ رساں ایجنسی کے مطابق اس بات کا امکان ہے کہ اسٹیفن پیڈک نفسیاتی مسائل کا شکار مریض ہونے کی بات پر یقین کرلیا جائے گا۔ اس واقعہ کو پورا ایک دن ہونے سے پہلے امریکی حکومت اس بات پر یقین کرلینے کے لیے تیار ہوگئی ہے اس کو نہ تو عیسائی دہشت گرد بتایاگیا اور نہ ہی کسی دہشت گرد تنظیم سے اس کے تعلق کو جوڑنے یا ڈھونڈنے کی کوشش کی گئی ہے۔
حالاں کہ شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ نے اس واقعے کے فوری بعد دعویٰ کیا تھا کہ اس حملے کے پیچھے ان کا ہاتھ ہے لیکن اس سلسلے میں کوئی ثبوت نہیں ملا لہٰذا بغیر ثبوت کے اسٹیفن کا تعلق کسی دہشت گرد تنظیم سے نہیں جوڑا جاسکتا تھا۔ بغیر ثبوت کے افغانستان اور عراق پر فوج کشی کی جاسکتی ہے۔ لاکھوں بے گناہ مردوں عورتوں اور بچوں کو بمباری کا نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ اسٹیفن نے لاس ویگاس کے ہوٹل کی 32 ویں منزل سے کھلے میدان میں ہونے والی موسیقی کی تقریب پر فائرنگ کی تھی اور بعد میں خودکشی کرلی تھی۔ ایک طرح سے یہ ایک خودکش حملہ ہی تھا جو رائفلوں کے ذریعے کیا گیا۔ اس کے کمرے سے 16 بندوقیں اور گھر سے 18 مزید ہتھیار بھی ملے ہیں لیکن انہیں بھی ثبوت قرار نہیں دیاجاسکتا اسی سال جنوری 2017ء میں فلوریڈا کے ایک ائرپورٹ پر بھی فائرنگ کرنے والے نے نصف درجن لوگوں کو مارگرایا تھا۔ وہ بھی امریکی شہری تھا۔ جولائی 2017ء میں رات کے ڈھائی بجے امریکی ریاست آرکنسو میں فائرنگ سے 28 افراد زخمی کیے گئے اس واقعے کے فوری بعد کہہ دیاگیا کہ شواہد سے نہیں لگتا کہ یہ دہشت گردی کا واقعہ ہے۔ اپریل 2017ء میں کیلیفورنیا کے اسکول میں کلاس روم میں فائرنگ کی گئی اور کئی افراد ہلاک ہوئے۔ مارچ 2017ء میں امریکی ریاست اوہائیو میں ایک نائٹ کلب میں فائرنگ ہوئی اورایک شخص ہلاک اور چودہ زخمی ہوگئے۔ یہ ایک سال کے دوران ہونے والی کھلے عام فائرنگ کے چند واقعات تھے لیکن یہ دہشت گردی کے واقعات نہیں قرار دیے جاسکے البتہ اگر ان واقعات میں کوئی مسلمان ملوث ہوتا تو پھر اور بات ہوتی ایسی صورت میں اس کے فون کالز سے لے کر کمپیوٹر اور بینک اکاؤنٹ ہر ایک سے متعلق فرد کو مشکوک قرار دیا جاچکا ہوتا اس کے ملنے والے پڑوسی دوست احباب رشتے دار سب دہشت گردی سے تعلق کے بعد مشکوک قرار دیے جاچکے ہوتے۔
یہ واقعات اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ دہشت گردی کے بارے میں بیانیہ تبدیل کیا جائے، مغالطے دور ہوں نامعلوم دہشت گرد قرار دے کر نامعلوم دہشت گردوں کی کارروائی کسی کے بھی کھاتے میں ڈالنے کا رواج ختم کیا جائے۔ جرم کو جرم سمجھا جائے۔ اس کو مذہب سے جوڑنا عالمی طاقتوں کی ضرورت ہے ہماری نہیں۔ اور عالمی طاقتیں حقیقت میں دہشت گردی ختم کرنا ہی نہیں چاہتیں کیونکہ یہ دہشت گردی ان کے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے ضروری ہے دو سال پہلے امریکا نے ایک رپورٹ جاری کی تھی کہ بعض خطوں اور ممالک میں آئندہ دو عشروں تک دہشت گردی اور انتشار کا خاتمہ نہیں ہوگا اور ان ممالک میں بد قسمتی سے پاکستان بھی شامل ہے۔ حقیقت میں یہ محض ایک رپورٹ نہیں بلکہ آئندہ کی حکمت عملی ہے۔
اس حکمت عملی میں دہشت گردی کے خدوخال مزید تیکھے بناکر پیش کرنا شامل ہے، نائن الیون کے بعد کتنی ہی قوموں کو دہشت گردی کے خدوخال میں ڈھال کر تباہ کر دیا گیا، کھنڈر بنادیا گیا، افغانستان سے لے کر عراق اور لیبیا سے لے کر شام تک دہشت گردی کی تصاویر عبرت کے لیے حقیقت میں ڈھالی گئیں۔ پاکستان کا نام لے کر سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ دے کر ساتھی بناکر معیشت، معاشرت اور تجارت سب کو ہی تباہ کیا گیا تعلیمی ادارے اور قابل قدر اساتذہ دہشت گردی کے فریم میں کسے گئے، تازہ ترین شکار جامعہ کراچی کے استاد ہیں جن کو ان کے اہلیہ آمنہ ڈھونڈتی پھررہی تھیں۔ حقیقت میں دہشت گردی تو اصل میں میں نفرت، تعصب اور نا انصافی ہے موقع پرست اپنی عیاری سے اس کو اپنی لیے ہتھیار بنالیتے ہیں اور اپنے ہی لوگوں کو مارنے، قتل کرنے، لاپتا کرنے اور زندانوں کی زینت بنانے سے دہشت گردی ختم نہیں ہوتی بلکہ اپنے بیج اور زیادہ زرخیز زمینوں میں بکھیر کر انہیں بڑھاوا دیتی ہے۔ اسٹیفن کو امریکی میڈیا ذہنی مریض باور کرارہا ہے۔ داعش کے دعوؤں کے باوجود یعنی انہوں نے دہشت گردی کا مٹھ ہی ماردیا۔ کیا پاکستان میں اس سے کچھ سبق سیکھا جاسکتا ہے؟؟؟