صحت و تعلیم کے شعبے تباہی کے دہانے پر پہنچ گئے

420

سینیٹ میں انکشاف کے باوجود کالجز میں منشیات کا استعمال
اور ہوٹلوں میں مری ہوئی مرغیوں کے گوشت کی فراہمی جاری
میاں منیر احمد ….. اسلام آباد

یوں تو ملک کا ہر شعبہ تنزلی کا شکار ہے لیکن تعلیم اور صحت جیسے اہم ترین شعبے بھی تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔ نجی تعلیمی اداروں میں منشیات کے استعمال کی رپورٹ نے تو اس ڈھانچے کی چولیں ہی ہلا دی تھیں۔ خیال تھا کہ اس معاملے میں حکام سنجیدہ رویے کا اظہار کرتے ہوئے صورت حال بہتر بنانے کی کوشش کریں گے لیکن معاملہ دبا دیا گیا۔ وجہ یہ تھی کہ بڑے خاندانوں کے بچے اس کام میں ملوث ہیں۔ ابھی اس معاملے کی دھول بیٹھی نہیں تھی کہ ایک نیا انکشاف ہوا کہ اسلام آباد میں بڑے ریستورانوں میں مردہ مرغیوں کا گوشت بھی فروخت ہورہا ہے، جسے ٹھنڈی مرغی کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ انکشاف کسی معمولی فورم پر نہیں ہوا بلکہ سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے نیشنل ہیلتھ سروسز کے اجلاس میں کیا گیا کہ وفاقی دارلحکومت اسلام آباد کے مشہور ہوٹلوں اور بیکرز میں مضر صحت کھانے کی اشیا فروخت کی جارہی ہیں اور پولٹری کی غذا میںایسی اشیا شامل کی جاتی ہیں جس سے دل ، گردے ،جگر و دیگر بیماریاں پھیل رہی ہیں اب فیصلہ ہوا کہ سینیٹ کمیٹی میں ڈیری ایسوسی ایشن کو بلایا جائے گا قائمہ کمیٹی کو یہ بھی بتایا گیا کہ اسلام آبادکے معروف ہوٹلوں میں مردہ مرغیوں اور مضر صحت گوشت کی سپلائی ہوتی ہے۔ اس طرح کے کاروبار میں ملوث ہوٹلز عوام کی زندگی سے کھیل رہے ہیں۔ ان کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے۔ قائمہ کمیٹی کو یہ بھی بتایا گیاکہ ملاوٹ شدہ دودھ کی وجہ سے بچوں میں بے شمار بیماریاں جبکہ کھانے میں برائلر مرغی کے استعمال سے خواتین بے شمار طبی مسائل کا شکار ہورہی ہیں۔ یہ صورت حال صرف اسلام آباد میں نہیں ملک کے ہر بڑے شہر میں پائی جاتی ہے۔ شعبہ ہیلتھ کے حوالے سے ایک بڑی پیش رفت یہ بھی ہوئی ہے۔ وزارت قومی صحت اور پی ایم ڈی سی کی مشترکہ اسکروٹنی کمیٹی نے 20 میں 11 کالجز کو کلیئر قرار دیدیا اور ان کے کیسز پی ایم ڈی سی کو بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق پی ایم ڈی سی اور وزارت قومی صحت کے درمیان معاملات طے پا گئے ہیں یہی وجہ ہے کہ نئی اسکروٹنی کمیٹی کو میڈیکل کالجز کی درخواستوںکا جائزہ لینے بعد انہیں پی ایم ڈی سی بھیجنے کی منظوری دیدی گئی ہے

اس منظوری کے بعد ان کالجز کی 90 فیصد کمی کو دور کر نے کی کوشش کامیاب ہوجائے گی۔ باقی 10 فیصد کو پی ایم ڈی سی کی انسپیکشن کے موقع پر دور کرنے کی ہدایت کی گئی ہے تاہم اسی شعبہ سے متعلق شکایات بڑھنے کا رحجان بھی سینیٹ کمیٹی میں زیر غور آیا۔ نقل کے رحجان پر قابو پانے کے لیے کسی بڑے فول پروف لائحہ عمل کی ضرورت محسوس کی گئی ہے۔ ملک میں میڈیکل کالجز کے حوالے سے ایک بات بہت ہی اہم ہے کہ ہرسال 14 طلبہ داخلہ لے پاتے ہیں اور کوئی ڈیڑھ لاکھ طلبہ یا تو مایوس ہوجاتے ہیں یا پھر بیرون ملک جانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اس معاملے کو انتہائی سنجیدگی سے حل کرنے کی ضرورت ہے راول میڈیکل سائنسز کے شاہد وحید خواجہ یہ معاملہ ایک جہاد سمجھ کر اٹھائے ہوئے ہیں۔ انہی کالجز کے حوالے سے ایک اور انکشاف بھی ہوا کہ میڈیکل کالجز میں داخلے کے خواہش مند طلبہ کی ایک محدود تعداد جن کا تعلق امیر گھرانوں سے ہوتا ہے انہیں بھاری رقم لے کر انٹری ٹیسٹ کے پیپرز لیک کیے جارہے ہیں اور فی طالب علم 20 لاکھ روپے وصول کیے گئے ہیں۔ یہ محض انکشاف نہیں بلکہ اس معاملے کی تحقیق اور تفتیش کے بعد تو اکیڈمی کے علاوہ اساتذہ کی گرفتاریاں بھی ہوئی ہیں۔ یہ کوئی 55 کروڑ روپے کا فراڈ ہے۔ یہ معاملہ بھی سینیٹ کی ایک کمیٹی میں زیر بحث آچکا ہے اور نجی میڈیکل کالج کی لابی سینیٹ کی اس کمیٹی پر بہت برہم ہے تاہم یہ لابی دو حصوں میں تقسیم ہے۔ ایک وہ جو انٹری ٹیسٹ کی حامی ہے اور دوسری لابی وہ ہے جو بھاری رقم وصول کرنے کے عوض پیپر لیک کیے جانے کے عمل اور انٹری ٹسٹ کے خلاف ہے۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں پی ایم ڈی سی کی میڈیکل کالجز کے لیے داخلہ پالیسی کے حوالے سے بھی تفصیل سے غور ہوا، اس بارے میں اب تک جو کوششیں ہوئیں اس بارے میں وزیر برائے صحت سائرہ افضل تارڑ نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ ایک 4 رکنی کمیٹی بنائی گئی ہے جس نے نجی میڈیکل کالج کی تنظیم پامی کے ساتھ مشاورت کرکے پالیسی ڈرافٹ تیار کرکے وزارت صحت کو بھیجی ہے جس کو منظوری کے لیے وزارت قانون کو بھیجا ہے۔

جس پر اراکین کمیٹی کے متعدد ارکان برہم ہوئے ۔گزشتہ معاملہ تاخیر کا شکار ہوتا چلا جارہا ہے۔ کمیٹی اجلاس میں فیصلہ ہوا تھا کہ پالیسی بناتے وقت قائمہ کمیٹی کو اعتمادمیں لیاجائے گامگر ایسا نہیں کیا گیا۔ قائمہ کمیٹی کو میڈیکل کالج میں داخلہ پالیسی کے بارے میں تفصیل سے آگاہ کیا گیا۔ سینیٹرڈاکٹر اشوک کمارنے کہا کہ دو میڈیکل کالجز کی آڈٹ رپورٹ طلب کی تھی وہ بھی فراہم نہیں کی گئی اور کمیٹی کو جو پریزینٹیشن دی جارہی ہے وہ صرف کاپی پیسٹ کی گئی ہے، کوئی تیاری نہیں کی گئی جس پر وزیر صحت نے پی ایم ڈی سی حکام کی سخت سرزلش کرتے ہوئے انکوائری کا فیصلہ کیا ، اراکین کمیٹی نے میڈیکل کالجوں میں طلبہ سے بھاری فیسیں وصول کرنے پر سخت برہمی کا اظہار کیا ، چیئرمین کمیٹی سینیٹر سجاد حسین طوری نے کہا کہ میڈیکل کالجز کے داخلوں کے لیے بھاری فیسیں وصول کرنے کی اجازت دینے پر وزارت پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی قائمہ کمیٹیوں کے اراکین کو مطمئن کرے۔ میڈیکل کالجوں کے مالکان اربوں سے کھربوں روپے کے مالک بن گئے ہیں۔ تحریک انصاف کے سینیٹر نعمان وزیر خٹک نے کہا کہ معیار تعلیم کے حوالے سے ایک معیار قائم کیاجائے، پی ایم ڈی سی بغیر اطلاع اسپتالوں کا دورہ کرے اور منافع ، نقصان اور درمیانے اخراجات کے کالجوں کے بیلنس شیٹ کا جائزہ لے کر موازنہ رپورٹ تیار کرے، جس پر کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ ہم آہنگی کمیٹی جس میں تحریک انصاف کے سینیٹر نعمان وزیر خٹک ، متحدہ کے عتیق شیخ، مسلم لیگ (ن) کے غوث محمد نیازی ، اور سینیٹر ڈاکٹر اشوک کمار پی ایم ڈی سی حکام سے مل کر رپورٹ مرتب کریں اور یہ رپورٹ کمیٹی میں پیش کی جائے۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ہیلتھ میں ڈائریکٹر ایڈمن چیف کمشنرآفس حمزہ شفقت و ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر نے بتایا کہ شفا ،معروف، علی میڈیکل ودیگر پرائیوٹ اسپتال اسپیشل سروسز کے لیے 10فیصد تک اضافی چارج کرتے ہیں۔ہمارے پاس اختیارات نہیں ہیں کہ ہم انہیں روک سکیں کہ ایک معمول سردرد کی دوا لکھنے پر بھی 3ہزار فیس وصول کی جاتی ہے۔ اس صورت حال پرچیئرمین کمیٹی سینیٹر سجادحسین طوری نے کہا کہ وفاقی دارلحکومت اسلام آباد میں آئیس کا نشہ استعمال کرنے والوں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہورہا ہے۔ متحدہ کے سینیٹرعتیق شیخ نے کہا کہ ملاوٹ والے دودھ کی وجہ سے بے شمار بچے بیمار ہورہے ہیں۔ جس کے بعد فیصلہ ہوا کہ آئندہ اجلاس میں ڈیری ایسوسی ایشن کو بلایا جائے گا قائمہ کمیٹی کو یہ بھی بتایا گیا کہ اسلام آبادکے معروف ہوٹلوں میں مردہ مرغیوں اور مضر صحت گوشت کی سپلائی ہوتی ہے۔ ہوٹلز عوام کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں ان کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے۔ جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اراکین کمیٹی لوگوں میں شعوراجاگر کرنے کے لیے احتجاجی واک کا انعقاد کریں ،قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹر زحمزہ، ڈاکٹر اشوک کمار ، میاں محمد عتیق شیخ ، کلثوم پروین ، نسیمہ احسان ، نعمان وزیر خٹک ، خالدہ پروین اور غوث محمد خان نیازی کے علاوہ وزیر صحت سائرہ افضل تارڑ اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔