پمز اسپتال میں ہڑتال کا 18 واں روز لاکھوں مریض او پی ڈی سے محرو م

239

اسلام آباد(رپورٹ:میاں منیر احمد) اسلام آباد میں 2 بڑے سرکاری اسپتال ہیں لیکن دونوں میں اس قدر سیاست بازی ہے کہ خدا کی پناہ۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) اسپتال میں آئے روز اسٹاف کی ہڑتال رہتی ہے جو کہ ہفتوں تک جاری رہتی ہے اس دوران شعبہ بیرونی مریضاں اور دیگر شعبے بری طرح نظر انداز ہوتے ہیں۔ ان دنوں پمز میں پھر ہڑتال جاری ہے اور 3 ہفتوں سے جاری ہڑتال کے باعث اب تک 5 مریض ڈاکٹرز کی توجہ نہ ملنے پر دم توڑ چکے ہیں۔ ہڑتال 4 سال قبل پیپلزپارٹی کی حکومت کے پاس کیے گئے ایک قانون کی وجہ سے کی گئی ہے جس کی رو سے پمز اسپتال ذوالفقار علی بھٹو
شہید میڈیکل یونیورسٹی میں بدل دیا گیا ہے۔



اس قانون کے خلاف 4 سال سے پمز کے ملازمین ہڑتال کر رہے ہیں ان 4 سالوں میں اس ایشو پر متعدد بار ہڑتال ہوچکی ہے۔ اسپتال میں روزانہ تقریبا 10 ہزار مریض او پی ڈی میں آتے ہیں جو کہ اس ہڑتال کے باعث ذلیل و خوار ہورہے ہیں۔ اسپتال کے باہر تو گاڑیوں کو ہارن بجانے کی اجازت نہیں مگر اسپتال کے اندر لاؤڈ اسپیکر کا کھلم کھلا استعمال ہورہا ہے اور مقامی سیاسی قیادت محض سیاسی مفادات کے لیے ہڑتال کی حمایت کر رہی ہے۔ اسپتال کی انتطامیہ غائب ہے، ایڈمنسٹریٹر کا کوئی پتہ نہیں کہ وہ کہاں ہیں؟ اسپتال میں جاری ہڑتال کے 16ویں روز فیصلہ ہوا کہ ہڑتال 2 گھنٹے کے لیے کی جائے جس کے بعد مریضوں کا علاج ہورہا ہے۔ اسپتال بحالی تحریک کے چیئر مین محمد شریف خٹک کے علاوہ ڈاکٹر اسفند یار نے یہ اعلان کررکھا ہے کہ جب تک قانون واپس نہیں ہوتا اور حکومت ایکٹ ختم نہیں کرتی اس وقت تک ہڑتال جاری رکھی جائے گی ۔ وزیر کیڈ طارق فضل چودھری کی خواہش ہے کہ مسئلہ حل ہوجائے اسی لیے یہ معاملہ اب پارلیمنٹ میں پیش ہورہا ہے اور اگلے اجلاس میں پارلیمنٹ میں اس قانون میں تبدیلی کا امکان ہے۔
ا