این آر او نہیں، این او سی چاہیے

343

تحریک انصاف کے سربراہ، یوں تو چار سال سے متحرک ہیں تاہم کچھ عرصہ سے زیادہ ہی متحرک ہوگئے ہیں، انتخابات سر پر آرہے ہیں ان کی طرح دیگر سیاسی جماعتیں بھی متحرک ہیں جب سے یہ اسمبلی قائم ہوئی ہیں اپوزیشن کو احتجاج اور ضمنی انتخابات متحرک ہونے کا موقع دیتے رہے ہیں اس وقت بھی پشاور میں قومی اسمبلی کے ایک حلقہ میں ضمنی انتخاب کا موسم گرم ہے، نمک منڈی ہو یا چرسی تکہ، ہر جگہ ضمنی انتخاب کے نتائج کا انتظار بھی ہورہا ہے اور بحث بھی جاری ہے کہ ضمنی انتخاب کا معرکہ کون سر کرتا ہے، سب کچھ کھل کر سامنے آجائے گا۔ جب سے نواز شریف نا اہل ہوئے ہیں، ایک بار پھر این آر او کی باتیں ہو رہی ہیں، عمران خان کہتے ہیں وہ کسی این آر او کو تسلیم نہیں کریں گے وہ کہنا چاہتے ہیں کہ ایک ہی این آر او کافی تھا جس سے پیپلزپارٹی نے فائدہ اٹھایا حالاں کہ یہ این آر او بے نظیر بھٹو کے لیے لایا جارہا تھا اب نواز شریف کے لیے کوشش ہو رہی ہے ہوسکتا ہے نواز شریف کے بجائے مسلم لیگ (ن) اس سے فائدہ اٹھائے عمران خان کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی اور نون لیگ میں نورا کشتی ہو رہی ہے آصف علی زرداری کا نوازشریف کی گرفتاری کا بیان قیامت کی نشانی ہے آصف زرداری اب تک نوازشریف کی مدد کرتے رہے، اب قوم کسی این آر او کو تسلیم نہیں کرے گی اور اگر اس بار کوئی این آر او آیا تو پوری قوم کو میں باہر نکالوں گا۔ عمران چاہتے ہیں کہ جسے بھی حکومت کرنی ہے اسے عوام سے این او سی لینا ہوگا لیکن وہ خود بھی اپنے لیے ایسا ہی چاہیں تو بہتر ہوگا۔ عمران خان کہتے ہیں کہ ملک میں حکومت نہیں چل رہی اسی لیے قبل ازوقت شفاف انتخابات کروائے جائیں، پی ٹی آئی کو فرق نہیں پڑتا، چند ماہ پہلے یا بعد میں انتخابات ہوں، تاہم قبل ازوقت انتخابات ملک کی ضرورت ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ان کی تیاری کس سطح کی ہے۔ جس روز وہ خود فیصلہ کرنے لگیں گے ان کی سیاست میں چمک بھی آجائے گی فی الحال وہ ایک سیاسی جماعت کے غیر سیاسی مزاج کے حامل سربراہ معلوم ہوتے ہیں لیکن اس کے باجود سندھ حکومت خوف زدہ تھی اسی لیے انہیں سہون کے اسٹیڈیم میں جلسہ کی اجازت نہیں دی گئی بعد میں انہیں شہباز قلندر کے مزار پر حاضری دینے کا موقع بھی نہیں دیا گیا۔ مزار کمیٹی کو اس بات کی ضرور تحقیق کرنی چاہیے کبھی بھی پاکستان میں یہ چیز نہیں دیکھی کہ آپ کسی کے مزار پر حاضری کے لیے نہ جانے دیں یہ پولیس اسٹیٹ ذہنیت تھی جس کی وجہ سے یہ کام ہوا اس کام سے لگا ہے کہ پیپلزپارٹی کو سندھ میں شکست ہو گی۔



ریاست کا کام لوگوں کے مال اور جان کی حفاظت کرنا ہوتا ہے اس بار پاکستانی قوم کسی قسم کے این آر او کو نہیں مانے گی پہلے نواز شریف نے 2000 میں مشرف سے این آر او لے کر دس سال کا معاہدہ کیا، پھر آصف زرداری کو مشرف نے این آر او دیا۔ سوئس اکاؤنٹس کے کیس میں وکیلوں پر دو ارب روپے خرچ کیا گیا تھا، پیسہ پاکستانیوں کا تھا۔ شہباز شریف کی باتیں ہو رہی ہیں قوم اسے کبھی تسلیم نہیں کرے گی حدیبیہ پیپر ملز کیس عدالت عظمیٰ میں پڑا ہے نیب کے سربراہ جاوید اقبال نے وزیرخزانہ اسحاق ڈار کے تمام اثاثے منجمد کردیے اور اس کی رپورٹ احتساب عدالت میں جمع کرائی تھی۔ اس کیس میں استغاثہ کے گواہ اور نجی بینک کے افسر عبدالرحمان گوندل کا بیان قلم بند کیا گیا ہے گواہ نے اسحاق ڈار کے بینک اکاونٹ کی تفصیلات بھی فراہم کر دیں گواہ پر جرح کے دوران اسحاق ڈار کے وکیل خواجہ حارث اور نیب پراسیکیوٹر کے درمیان شدید تلخ کلامی بھی ہوئی ہے۔ وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ نیب کا رویہ ناقابل برداشت ہے اور میں اپنا احتجاج رکارڈ کرارہا ہوں، مجھے نیب پراسیکیوٹر پر افسوس ہوتا ہے اور سمجھ میں نہیں آتا یہ کیسے پراسیکیوٹر ہیں، گواہ ماہر ہیں اور سمجھدار بھی تو پھر نیب پراسیکوٹر کیوں بار بار مداخلت کررہے ہیں۔ نیب پراسیکیوٹر عمران شفیق نے جواب میں کہا کہ آپ مجھ پر ذاتی حملے نہ کریں اور میں سینئر وکیل سے ایسے حملوں کی توقع نہیں کرتا خواجہ حارث نے نیب پراسکیوٹر سے کہا کہ آپ گواہ پر اثر انداز ہونے کی کوشش نہ کریں۔ جواب میں عمران شفیق نے کہا کہ گواہ عدالت کے سامنے بیان دے رہا ہے، کیسے اثر انداز ہوسکتا ہوں؟۔ جج محمد بشیر نے کہا کہ اچھا اب آپ دونوں لڑ چکے تو آگے بڑھیں! یہ کیس تو آگے بڑھے گا ہی سندھ میں ایک اور کیس آگے بڑھ گیا ہے کہ 6 ارب روپے کرپشن کیس میں سابق وزیراطلاعات سندھ شرجیل انعام میمن کی ضمانت منسوخ کرکے گرفتاری کا حکم دے دیا۔ پیر کو سندھ ہائی کورٹ میں صوبائی محکمہ اطلاعات میں 6 ارب روپے کرپشن کیس میں عدالت نے سابق صوبائی وزیرشرجیل انعام میمن سمیت دیگر کی عبوری ضمانت منسوخ کردی اور نیب کو ملزمان کی گرفتاری کا حکم دے دیا ہے ا ور پنجاب حکومت کی 56کمپنیوں میں 80ارب روپے کی کرپشن کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر دی گئی جس میں موقف اختیار کیا کہ پنجاب حکومت کی 56کمپنیوں میں 80ارب روپے کی کرپشن ہوئی، کمپنیوں میں افسران کو لاکھوں روپے تنخواہیں اور مراعات سے نوازا جا رہا ہے لہٰذا عدالت نیب کو پنجاب حکومت کی کمپنیوں کی از سر نو تحقیقات کا حکم جاری کرے۔



اب دو اہم خبروں کی بات ہوجائے سینیٹ کی خصوصی کمیٹی نے پی آئی اے کے اسرائیلی فلم میں استعمال ہونے والے طیارے کے معاملے پر تفصیلی رپورٹ طلب کرلی، کمیٹی کا اجلاس 26اکتوبر کو ہوگا، طیارے کی رجسٹریشن ختم نہ ہونے اور کسٹم کلیئرنس کے بغیر نیلامی کے لیے پیش کرنے پر جواب مانگ لیا گیا ہے ایف آئی اے کی تحقیقات سے کمیٹی کو آگاہ کرنے کی ہدایت کردی گئی۔ ڈیل کے لیے متذکرہ دونوں شرائط پوری کرنا ضروری ہوتا ہے اس کے بعد ہی نیلامی کا اشتہار دیا جاسکتا ہے اب یہ طیارہ دونوں انجن کے بغیر فروخت کیا جائے گا صرف ڈھانچہ نیلام ہو گا، ایوی ایشن نے نئی ڈیل کی دستاویزات تیارکرلی ہیں اس ڈیل کے بارے میں پی آئی اے کی کارکردگی سے متعلق سینیٹ کی خصوصی کمیٹی کو آگاہ کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ پی آئی اے کا یہ جہاز فلم میں استعمال کرنے کے لیے برطانوی کمپنی نے کرائے پر حاصل کیا تھا اور جب مالٹا میں فلم بنانے کے دوران اس طیارے کو استعمال کیا گیا تو اس پر پاکستان کا جھنڈا نہیں تھا بلکہ فرانس کا جھنڈا لگا ہوا تھا۔ کرائے کی مد میں پاکستان کو 2 لاکھ یورو سے زائد کی رقم ملی جہاز کا ڈھانچہ نیلام کرنے کی تیاری شروع کردی گئی جب کہ بعض حلقوں کی رائے ہے ایک سننی خیز غیرملکی فلم میں پی آئی اے کے اس جہاز کے استعمال سے اس کی اہمیت بڑھ گئی ہے، جس پر اس کی قیمت فروخت میں اضافہ ہوگیا ہے تاحال ڈیل کو حتمی شکل نہیں دی گئی۔ معلوم ہوا کہ ڈھانچے کی نیلامی کے لیے اس کی رجسٹریشن ختم اور کسٹم سے کلیئرنس لینا ضروری ہے اور یہ شرائط پوری نہ ہونے کی ایف آئی اے لاہور بھی تحقیقات کر رہا ہے۔ طیارے کو دونوں انجن پاکستان واپس لائے جائیں گے۔ 26 اکتوبر کو سینٹ کی خصوصی کمیٹی کو بریفنگ دی جائے گی آبی وسائل کے بہترو موثر انتظام کے معاملات پر گفت و شنید کے لیے 2 نومبر کو ’’سینٹ فورم برائے پالیسی ریسرچ‘‘ کا اجلاس طلب کر لیا گیا ہے یہ فورم حکومت اپوزیشن کی مختلف جماعتوں کے 17 رہنماؤں و ماہرین پر مشتمل ہے، پانی کی تقسیم کے معاہدے کے مطابق صوبوں میں پانی کی تقسیم اور اس سے متعلق مسائل و اعتراضات کے علاوہ زیر التواء بڑے ڈیموں کا جائزہ بھی متوقع ہے پاکستان کے آبی وسائل کی قومی تحقیقاتی کونسل کے سربراہ فورم کے اراکین کو آبی وسائل کی کمی اور دستیاب وسائل کے بہتر انتظامات کے بارے میں بریفنگ دیں گے ان ڈیموں پر صوبائی اسمبلیوں کی مختلف قراردادوں، اہم آبی ذخائر سے وابستہ ملک کے وسیع مفادات اس بارے میں ماہرین کی تحقیق اور سندھ طاس معاہدے کی بھارتی خلاف ورزیوں کے نتیجہ میں پاکستان میں پانی کی کمی میں اضافے کی رپورٹیں بھی پیش ہوں گی فورم کا یہ اہم اجلاس 2 نومبر کو چیئرمین سینیٹ کی صدارت میں پارلیمانی خدمات کے انسٹی ٹیوٹ (پپس) میں ہوگا۔ اجلاس اصل میں سینیٹ میں سینیٹر محسن لغاری کی ایک رپورٹ پیش کی جانے کے بعد حقائق معلوم کرنے کے لیے بلایا گیا ہے۔