نیشنل ٹیسٹنگ سروس (این ٹی ایس) میرٹ اور صلاحیت کا قتل عام

536

قاضی عمران احمد
نیشنل ٹیسٹنگ سروس پاکستان گزشتہ 15 برس سے کام کر رہا ہے اور اس کا کام پاکستان بھر کے سرکاری و غیر سرکاری تعلیمی اداروں میں داخلہ ٹیسٹ کے علاوہ نجی اور سرکاری اداروں اور بینکوں میں بھرتیوں اور ترقیوں کے لیے بھی ٹیسٹ لینا ہے۔ یہ ایک غیر سرکاری ادارہ ہے اور سکیورٹی ایکس چینج پاکستان سے سیکشن 42 کے تحت رجسٹرڈ ہے۔ ادارے کا دعویٰ یہ ہے کہ یہ ایک غیر منافع بخش ادارہ ہے۔ پاکستان کے مختلف تعلیمی اداروں میں داخلہ ٹیسٹ کی غرض سے وجود میں آنے والے اس ادارے ’’این ٹی ایس‘‘ نے اپنا دائرہ کار بڑھاتے ہوئے سرکاری، نیم سرکاری اور نجی اداروں میں بھی بھرتیوں اور ترقیوں کے ٹیسٹ کرانا شروع کر دیے جس کی بنیاد پر ’’این ٹی ایس‘‘ کا منافع لاکھوں سے بڑھ کر کروڑوں روپے تک جا پہنچا ہے۔
ہر محکمے میں بھرتی اور یونی ورسٹیز میں داخلے کے لیے این ٹی ایس ٹیسٹ جزو لازم بنتا جا رہا ہے جس کی کم از کم فیس 500 روپے ہے جو مختلف ٹیسٹوں کے لیے بالترتیب چھ سو، آٹھ سو، ہزار اور بارہ سو تک ہے جو امید وار کو فارم بھرتے ہی ادا کرنی پڑتی ہے جس نے جتنی اسامیوں کے لیے اپلائی کرنا ہے وہ اتنی ہی دفعہ الگ الگ فیس ادا کرے گا اور سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ کسی امید وار کو رزلٹ میں اعتراض کی صورت میں ری چیکنگ کی سہولت بھی میسر نہیں۔ مزید برآں امتحانی سینٹر بھی دور دراز علاقوں میں بنائے جاتے ہیں جن سے خاص کر خواتین امید واروں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پس ماندہ اضلاع میں رہنے والے افراد ہزاروں روپیہ کرایہ لگا کر سینکڑوں کلو میٹر دور امتحانی سینٹر جانے پر مجبور ہوتے ہیں۔
این ٹی ایس کی جانب سے لیے جانے والے داخلہ ٹیسٹ کے مکمل نتائج ویب سائٹ پر نہ دیے جانے نے داخلے میں شفافیت کو سوالیہ نشان بنا دیا ہے۔ این ٹی ایس ہر برس مختلف جامعات اور کالجوں میں داخلے کے لیے ٹیسٹ کا انعقاد کرتا ہے مگر اس ٹیسٹ یا امتحان کے مکمل نتائج کبھی بھی جاری نہیں کیے جاتے۔ رول نمبر ڈالنے پر صرف متعلقہ امیدوار کو ہی اس کا نتیجہ بتایا جاتا ہے۔ اس طریقہ کار کی بنا پر کالجوں کی انتظامیہ خصوصی طور پر طبی کالجوں اور جامعات کی انتظامیہ نے داخلوں کے عمل کو کروڑوں روپے بنانے کی انڈسٹری کا درجہ دے دیا ہے۔ این ٹی ایس کے ذرائع نے ’’جسارت‘‘ کو بتایا کہ این ٹی ایس تو پورا نتیجہ دینے کو تیار ہے تاہم متعلقہ جامعات جو این ٹی ایس کی داخلہ امتحانات کے لیے خدمات حاصل کرتی ہیں، ان کی فرمائش اور ہدایت پر ایسا ہی کیا جاتا ہے۔ ذرائع کے مطابق جن افراد کے بچوں کے این ٹی ایس میں اچھے نمبر نہیں آتے وہ ’’فرنٹ مین‘‘ کے ذریعے انتظامیہ سے رابطہ کرتے ہیں اور پانچ تا دس لاکھ روپے کے عوض میرٹ لسٹ کی تیاری میں ان کا نام شامل کر دیا جاتا ہے جس سے حق دار امیدواروں کی حق تلفی ہوتی ہے۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ این ٹی ایس کے تحت دیے جانے والے داخلہ ٹیسٹ کی فیس ایک ہزار روپے ہے۔ ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ این ٹی ایس کی جانب سے تعلیمی دستاویزات کی دستی وصولی کا کوئی انتظام نہیں ہے، امیدواروں کو ٹی سی ایس کا اضافی خرچہ بھی برداشت کرنا پڑتا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ فروری 2016ء میں اس حوالے سے مختلف اخبارات میں خبریں بھی شائع ہوئی تھیں کہ کچھ اداروں میں بھرتی کے لیے سینکڑوں امیدواروں نے این ٹی ایس کی فیس ادا کر کے بروقت فارم بھیجے مگر ان کا نام نہ تو منتخب امیدواروں میں آیا نہ مسترد امیدواران یا اعتراض شدہ میں، ایسے امیدوار بینک ادائیگی فیس اور ڈاک خانے یا ٹی سی ایس کی رسیدیں تھامے جواب کے منتظر ہیں کہ ان کے پیسے کہاں گئے۔ ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ کسی امیدوار کو نتائج میں اعتراض کی صورت میں ری چیکنگ کی سہولت بھی میسر نہیں ہے۔
نیشنل ٹیسٹنگ سروس پاکستان کے سابق سربراہ کی ڈگری جعلی ثابت ہونے، کروڑوں روپے خورد برد کرنے کے الزام اور ٹیسٹ کے طریقہ کار پر مسلسل تنقید کا نشانہ بننے کے باوجود کراچی سمیت سندھ بھر کے تمام طبی کالجوں اور جامعات کے داخلہ ٹیسٹ اس سال بھی نیشنل ٹیسٹنگ سروس پاکستان (این ٹی ایس) ہی لے رہا ہے۔ مقررہ نشستوں کے لیے ہزاروں امیدواروں سے ’’انٹری ٹیسٹ فیس‘‘ کے نام پر لاکھوں روپے ناقابل واپسی وصول کیے جا رہے ہیں۔ ان تمام الزامات کی روشنی میں محکمۂ صحت کا طبی کالجوں اور جامعات کے داخلہ ٹیسٹ این ٹی ایس کے ذریعے ہی لینا ایک سوالیہ نشان ہے۔
طبی کالجوں کے مطابق تمام پالیسیاں محکمۂ صحت ہی کی جانب سے بن کر آتی ہیں اور یہ فیصلہ بھی دو تین ماہ پہلے سیکریٹری صحت کی سربراہی میں ہونے والے ایک اجلاس میں کیا گیا تھا، سندھ بھر میں میڈیکل کی 1800 نشستیں موجود ہیں جن کے لیے ایک اندازے کے مطابق 21 ہزار سے زائد امیدوار نے داخلہ ٹیسٹ دیے ہیں۔ ہر طبی کالج فارم اور پراسپکٹس کی فیس ڈھائی ہزار روپے جب کہ این ٹی ایس کی فیس 840 روپے وصول کی گئی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس الگ الگ تاریخوں میں این ٹی ایس ٹیسٹ لیے گئے تھے جن کے لیے امیدواروں نے کئی کئی یونی ورسٹیوں میں فارم جمع کرائے تھے اور ہر جگہ کے لیے الگ الگ این ٹی ایس فیس بھی جمع کرائی تھی جس سے طلبہ و طالبات کو بہت زیادہ مالی خسارہ اٹھانا پڑا تھا جب کہ این ٹی ایس کو لاکھوں روپے منافع ملا تھا۔ واضح رہے کہ داخلہ نہ ہونے کی صورت میں کوئی رقم قابل واپسی نہیں ہے۔
اس سال ہونے والے داخلہ ٹیسٹ کے لیے بھی این ٹی ایس ہی کو مقرر کیا تھا اور 22 اکتوبر کو ہونے والے داخلہ امتحان میںایک طرف جہاں انتہائی بد نظمی کا مظاہرہ دیکھنے کو ملا وہیںکراچی سمیت سندھ بھر میں اس امتحان کے خلاف طلبہ وطالبات کی جانب سے امتحانی پرچہ ایک دن قبل ہی آؤٹ ہونے کے الزامات عائد کیے گئے اور ان طلبہ و طالبات کی جانب سے کراچی سمیت سندھ کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے اور این ٹی ایس ٹیسٹ کو مسترد کرتے ہوئے دوبارہ داخلہ ٹیسٹ لینے کا مطالبہ کیا گیا۔ اس ضمن میںچیئرمین داخلہ کمیٹی اور وائس چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی سے ’’جسارت‘‘ نے رابطہ کیا تو پروفیسر ڈاکٹر سعید قریشی کا کہنا تھا کہ این ٹی ایس ٹیسٹ کا پرچہ آؤٹ ہونے کی شکایات سامنے آنے کے بعد ہم نے یہ معاملہ ایف آئی اے سائبر کرائم کے حوالے کر کے ان سے تحقیقات کر کے اصل صورت حال سامنے لانے کا کہا تو اب تک کی تحقیقات کے مطابق ایسے کوئی شواہد نہیں ملے ہیں کہ جن سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ پرچہ آؤٹ ہوا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر سعید قریشی کا کہنا تھا کہ جب تک مکمل شواہد سامنے نہیں آ جاتے اس وقت تک دوبارہ انٹری ٹیسٹ نہیں لیے جا سکتے لیکن اگر اس حوالے سے شواہد مل گئے کہ واقعی پرچہ آؤٹ ہوا ہے تو دوبارہ انٹری ٹیسٹ لیا جا سکتا ہے، ہم نے ایف آئی اے سائبر کرائم سیل سے کہا ہے کہ وہ پرچہ آؤٹ ہونے کے حوالے سے مکمل اور غیر جانب دار تحقیقات کر کے ہمیں آگاہ کریں۔ دوسری جانب جب جناح سندھ میڈیکل یونی ورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد طارق رفیع کا کہنا تھا کہ اس مرتبہ پورے سندھ میں ایک ہی دن انٹری ٹیسٹ لیا گیا تھا اور اس حوالے سے ٹینڈر کے ذریعے این ٹی ایس کو داخلہ ٹیسٹ کی ذمے داری دی گئی تھی اور یہ این ٹی ایس کی ذمے داری ہے کہ وہ شفاف طریقے سے امتحان منعقد کرائے۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد طارق رفیع کا مزید کہنا تھا کہ میری داخلہ کمیٹی کے چیئرمین پروفیسر محمد سعید قریشی سے جب اس حوالے سے بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے کہ پرچہ لیک ہوا ہے، اس حوالے سے ایف آئی اے سائبر کرائم سے جو تحقیقات کرائی گئی ہیں ان کے مطابق فی الحال پرچہ آؤٹ ہونے کے بارے میں کوئی شواہد نہیں ملے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد طارق رفیع کا کہنا تھا کہ پروفیسر ڈاکٹر محمد سعید قریشی کے مطابق احتجاج کرنے والے طلبہ و طالبات وہ ہیں جن کے انٹری ٹیسٹ میں نمبر کم آئے ہیں جس کی وجہ سے ان کا طبی جامعات میں داخلہ نہیں ہو سکتا تو وہ احتجاج کر رہے ہیں۔
دوسری جانب گزشتہ ہفتے سندھ بھر میں میڈیکل یونی ورسٹیز اور کالجز میں داخلہ ٹیسٹ کا این ٹی ایس پرچہ لیک ہونے کے معاملے کا سندھ حکومت نے نوٹس لے لیا ہے جب کہ حکومت نے پرچہ لیک ہونے کے معاملے کی تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے عوام سے بھی مدد طلب کرلی ہے۔ سندھ میں پہلی بار بیک وقت5 شہروں کراچی، حیدرآباد، سکھر، نواب شاہ اور لاڑکانہ میں داخلہ ٹیسٹ لیے گئے تھے جس میں صوبے بھر سے21 ہزار سے زائد طلبہ و طالبات نے شرکت کی تھی، انٹری ٹیسٹ کا پرچہ لیک ہونے کا انکشاف24 اکتوبر کو ہوا تھا، پرچہ آؤٹ ہونے پر محکمہ صحت سندھ نے عوام سے بھی مدد طلب کر لی ہے اور کہا ہے کہ 30 اکتوبر سے یکم نومبر تک بدعنوانی کا ثبوت کمیٹی کو جمع کرایا جا سکتا ہے۔ حکومت سندھ نے میڈیکل یونی ورسٹیز اور کالجز میں داخلہ ٹیسٹ کا پرچہ لیک ہونے کا نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات کا حکم دے دیا ہے، سندھ حکومت نے تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے نوٹی فکیشن بھی جاری کردیا ہے، نوٹی فکیشن کے مطابق تحقیقات کے دوران طلبہ اور والدین کے بیانات ریکارڈ کیے جائیں گے اور نیشنل ٹیسٹنگ سروس (این ٹی ایس) سے بھی تفصیلات حاصل کی جائیں گی۔ نوٹی فکیشن میں مزید کہا گیا ہے کہ اسپیشل سیکریٹری صحت کی سربراہی میں5 رکنی تحقیقاتی کمیٹی قائم کی گئی ہے جو10 روز کے اندر تحقیقات کے بعد رپورٹ سندھ حکومت کو ارسال کرے گی۔
نیشنل ٹیسٹنگ سروس پاکستان (این ٹی ایس) کے سابق چیف ایگزیکٹیو آفیسر ڈاکٹر ہارون رشید پر مالی بدعنوانی کے الزامات اور اسناد جعلی ثابت ہونے پرانہیں چند ماہ قبل فارغ کر دیا گیا تھا۔ نیشنل ٹیسٹنگ سروس پاکستان کا ادارہ 2003ء میں وجود میں آیا اور ڈاکٹر ہارون رشید اس وقت سے چیف ایگزیکٹیو آفیسر کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دے رہے تھے، گزشتہ دو سال سے ان پر الزامات کا سلسلہ جاری تھا اور ان کی ڈگری کے حوالے سے سوالات اٹھائے جا رہے تھے جب ان کی ڈگری جعلی ثابت ہو گئی تو انہیں ان کے عہدے سے سبک دوش کر دیا گیا۔ جس ادارے میں اپنے احتساب کا سلسلہ نہ ہو اور عہدیداران کی اسناد چیک کرنے کا طریقہ کار نہ ہو وہ کیوں کر شفافیت کے ساتھ داخلہ ٹیسٹ منعقد کرا سکتا ہے؟ نیشنل ٹیسٹنگ سروس (این ٹی ایس) طبی جامعات اور کالجوں کی ملی بھگت سے میرٹ کا قتل عام، اہل اور باصلاحیت طالب علم داخلوں سے محروم کر دیے جاتے ہیں، سیلف فنانس کے نام پر نشستیں لاکھوں روپے میں فروخت کر دی جاتی ہیں، ذرائع کے مطابق نیشنل ٹیسٹنگ سروس (این ٹی ایس) کی ویب سائٹ پر مکمل نتائج جاری نہ کرنے کے باعث طبی جامعات اور کالجوں میں میرٹ لسٹ تبدیل کر کے من پسند لوگوں کو داخلہ دیا جاتا ہے، لاکھوں روپے کے عوض سیلف فنانس پر بھی نشستیں فروخت کر دی جاتی ہیں۔ طبی جامعات و کالجوں کے ذرائع کا کہنا ہے کہ داخلہ ٹیسٹ این ٹی ایس کے ذریعے لیے جانے میں ’’کمیشن‘‘ کا اہم ترین کردار ہے، این ٹی ایس کی جانب سے ان اداروں کو جو داخلہ ٹیسٹ ان کے ذریعے منعقد کراتے ہیں، انہیں ’’کک بیکس‘‘ بھی دیا جاتا ہے جب کہ ان طبی جامعات و کالجوں کی انتظامیہ سالانہ کل نشستوں میں سے قریباً 30 فی صد نشستیں سیلف فنانس کے نام پر لاکھوں روپے میں فروخت کر دیتی ہے۔ ذرائع کے مطابق این ٹی ایس کی جانب سے مکمل نتائج ویب سائٹ پر جاری نہ کرنے کے باعث اہل اور باصلاحیت امیدوار داخلوں سے محروم ہو جاتے ہیں اور جن کے پاس پیسہ ہوتا ہے ان کو داخلے مل جاتے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ ان طبی جامعات و کالجوں میں داخلہ ٹیسٹ سے قبل ہی مخصوص نشستوں پر سیلف فنانس کے امیدواروں اور ان کے والدین سے انٹرویو کر لیے جاتے ہیں، اس کے بعد بچنے والی نشستوں پر ’’میرٹ‘‘ پر داخلہ دیا جاتا ہے۔ ذرائع کے مطابق گزشتہ برس فی نشست سیلف فنانس پر 8 سے 10 لاکھ روپے میں فروخت ہوئی تھی جب کہ کئی ایسے امیدوار جو ان طبی جامعات اور کالجوں کے مقرر کردہ میرٹ پر پورا اترتے تھے لیکن این ٹی ایس کے داخلہ ٹیسٹ میں ’’ناکام‘‘ ہو جانے کی وجہ سے داخلوں سے محروم رہ گئے تھے۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایک ایسا ادارہ کہ جس کے سابق سربراہ پروفیسر ہارون رشید کو صرف اس لیے ہٹایا گیا کہ ان کی ڈگری جعلی تھی اور ان پر بدعنوانیوں کے الزام بھی تھے، جس ادارے میں اپنے سربراہ کے انتخاب کے وقت شفافیت کو نظر انداز کر دیا جائے وہ کیسے شفاف داخلہ ٹیسٹ کا انعقاد کر سکتا ہے۔ ذرائع کے مطابق ویب سائٹ پر مکمل نتائج کا اجراء نہ کرنا ایک طرف داخلہ ٹیسٹ کے تمام عمل کو مشکوک بناتا ہے تو دوسری جانب این ٹی ایس اور طبی جامعات و کالجوں کی ساز باز یا ملی بھگت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سابق مرکزی سیکریٹری جنرل ڈاکٹر مرزا علی اظہر سے جب اس حوالے سے بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ نیشنل ٹیسٹنگ سروس پاکستان (این ٹی ایس) کی جانب سے ویب سائٹ پر مکمل نتائج نہ دینا پورے عمل کو مشکوک بنا رہا ہے، داخلہ ٹیسٹ کی شفافیت کے لیے ضروری ہے کہ مکمل نتائج ویب سائٹ پر جاری کیے جائیں، یہ عمل میرٹ کے قتل عام کے مترادف ہے، اگر اپنی مرضی کے داخلے ہی دینے ہیں تو ٹیسٹ کا ڈھونگ کیوں رچایا جاتا ہے۔ کراچی سمیت سندھ بھر کی طبی جامعات اور کالجوں میں داخلے کے لیے مختص 1800 نشستوں کے لیے 21 ہزار سے زائد امیدوار داخلہ ٹیسٹ میں شامل ہوئے ہیں۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سابق مرکزی سیکریٹری جنرل ڈاکٹر مرزا علی اظہر نے ’’جسارت‘‘ سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے مزید کہا کہ ہمارا المیہ یہ ہے کہ قیام پاکستان کو 70 برس گزر جانے کے باوجود ہم کسی بھی شعبے میں کوئی مستقل پالیسی نہیں بنا سکے ہیں، ہر سال ایک نئی پالیسی سامنے آ جاتی ہے، اگر کوئی پالیسی بنی بھی ہے تو اس پر اس کی روح کے مطابق ایمان داری سے عمل نہیں ہوتا۔ این ٹی ایس کے ادارے کے وجود میں آنے سے پہلے تمام داخلے میرٹ کی بنیاد پر ہوا کرتے تھے اور حق داروں کو ان کا حق مل جایا کرتا تھا۔ اس زمانے میں بد دیانتی یہ ہوا کرتی تھی کہ نجی طبی تعلیمی ادارے اپنی داخلہ پالیسی کا اعلان پہلے کر دیا کرتے تھے اور داخلہ دے دیا کرتے تھے جب کہ سرکاری تعلیمی اداروں میں بعد میں داخلہ ہوا کرتا تھا لیکن وہاں میرٹ اسی نتیجے سے بنتا تھا جو اعلیٰ ثانوی بورڈ جاری کیا کرتا تھا۔ اس وقت طلبہ و طالبات کے پاس بھی انتخاب ہوا کرتا تھا کہ وہ کس کالج میں داخلہ لینا چاہتے ہیں۔ ڈاکٹر مرزا علی اظہر کا کہنا تھا کہ کسی مستقل پالیسی کا نہ ہونا ہمارے نظام کی ناکامی کا ثبوت ہے۔ اس حوالے سے ایک مستقل پالیسی تشکیل دی جانی چاہیے۔ این ٹی ایس کی جانب سے مکمل نتائج ویب سائٹ پر جاری نہیں کرنے پر اگر طبی جامعات اور کالجوں کی طرف کوئی پالیسی ہے تو اس کا خاتمہ ہونا چاہیے کیوں کہ اس سے ایک طرف جہاں یہ سارا عمل مشکوک بن جاتا ہے وہیں حق داروں کی حق تلفی ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرٹ سے بچ جانے والی نشستیں لاکھوں روپے میں فروخت کر دی جاتی ہیں جو طلبہ و طالبات کے ساتھ زیادتی ہے۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن سندھ کے رہنما ڈاکٹر سعید میمن کا کہنا تھا کہ این ٹی ایس کے ذریعے داخلہ ٹیسٹ کا سلسلہ تو دس یا پندرہ سال پرانا ہے، اس سے قبل تو اعلیٰ ثانوی تعلیمی بورڈز کے سالانہ نتائج کے مطابق میرٹ لسٹ بنا کرتی تھی، ملک میں بے شمار بڑے ڈاکٹرز اور طب کے پیشے میں نام ور لوگ موجود ہیں، انہوں نے تو کوئی این ٹی ایس ٹیسٹ پاس نہیں کیا تو کیا وہ لوگ نااہل ہیں؟ انہوں نے کہا کہ یہ بچے اس ملک اور قوم کا مستقبل اور امانت ہیں اور یہی بچے آگے جا کر طب کے میدان میں جدید تحقیقات کر کے پاکستان کا نام اقوام عالم میں بلند کریں گے۔ این ٹی ایس اور جامعات و کالجوں کی انتظامیہ کی ملی بھگت سے میرٹ، ذہانت اور صلاحیتوں کے قتل عام کی مذمت کرتے ہوئے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ داخلہ ٹیسٹ کے نتائج کی شفافیت کے لیے انہیں اسی شام کہ جب داخلہ ٹیسٹ کا انعقاد ہو، این ٹی ایس کی ویب سائٹ پر سب کے لیے مکمل نتائج کا اجراء ممکن بنایا جائے۔
آئی اسپنسر ہسپتال کراچی کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر بیربل گینانی نے ’’جسارت‘‘ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ طبی جامعات و کالجوں میں نیشنل ٹیسٹنگ سروس پاکستان کی جانب سے لیے جانے والے داخلہ ٹیسٹ عوام کی جیبوں پر ڈاکے کے مترادف ہے۔ این ٹی ایس داخلہ ٹیسٹ صرف کمائی کا ذریعہ اور میرٹ کا قتل ہے۔ این ٹی ایس داخلہ ٹیسٹ نے اعلیٰ ثانوی تعلیمی بورڈ کے امتحانی نتائج کی اہمیت ختم کر کے رکھ دی ہے۔ ڈاکٹر بیربل گینانی نے مزید کہا کہ گزشتہ برس میری بیٹی نے اعلیٰ ثانوی بورڈ کے امتحان میں امتیازی نمبر 86 فی صد حاصل کیے اس کے باوجود اسے بھی این ٹی ایس کے تحت داخلہ ٹیسٹ کے مراحل سے گزرنا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ جب سے این ٹی ایس کے تحت داخلہ ٹیسٹ کا سلسلہ شروع ہوا ہے اعلیٰ ثانوی بورڈ کے نتائج کی اہمیت ختم ہو کر رہ گئی ہے، یہ این ٹی ایس اور طبی جامعات و کالجوں کی کمائی کا ایک ذریعہ ہے اور غریب لوگوں کی جیبوں پر ڈاکے کے مترادف ہے۔ انہوں نے بتایا کہ میری بیٹی کے داخلہ فارم سے این ٹی ایس داخلہ ٹیسٹ تک کے تمام اخراجات قریباً 60 ہزار روپے ہوئے جس میں این ٹی ایس ٹیسٹ کی تیاری کے لیے ایک ٹیچر کی فیس بھی شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرٹ کی اہمیت کو ختم کر کے تعلیم کو تجارت بنا دیا گیا ہے۔ ویب سائٹ پر مکمل نتائج کا نہ دینا بھی باصلاحیت اور ذہین طلبہ کے ساتھ زیادتی ہے، ایک اور ظلم یہ ہے کہ این ٹی ایس کے نتائج کو نہ تو چیلنج کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی ری چیک کیا جا سکتا ہے۔ ایک شہری رضوان احمد خان کا کہنا تھا کہ این ٹی ایس کی وجہ سے انہیں اپنی بیٹی کے میڈیکل کالج میں داخلے کے لیے انتہائی دشواری کا سامنا کرنا پڑا، میری بیٹی نے اعلیٰ ثانوی بورڈ کے امتحانات میں 70 فی صد نمبر حاصل کیے لیکن این ٹی ایس کے داخلہ ٹیسٹ میں پوائنٹ چند فی صد کی وجہ سے اس کا داخلہ رہ گیا جس کی وجہ سے اسے ’’سیلف فنانس‘‘ میں داخلہ لینا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ این ٹی ایس کے نام پر داخلہ ٹیسٹ کا ڈھونگ رچایا جاتا ہے اور باصلاحیت طلبہ و طالبات کے مستقبل سے کھیلا جاتا ہے۔ غریب طلبہ و طالبات بہترین پوزیشنیں حاصل کرنے کے باوجود صرف اس لیے داخلوں سے محروم رہ جاتے ہیں کہ انتظامیہ کی تمام تر توجہ ’’سیلف فنانس‘‘ کی جانب ہوتی ہے، جس سے انہیں فی نشست 6 سے 8 لاکھ روپے سالانہ مل جاتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ برس میں نے اپنی بیٹی کو 6 ماہ قبل سے ہی ایک انسٹی ٹیوٹ کے ذریعے این ٹی ایس داخلہ ٹیسٹ کی تیاری شروع کرا دی تھی اور میرے ان تمام مراحل میں 55 ہزار روپے کے اخراجات ہوئے لیکن اس کے باوجود این ٹی ایس میں پوائنٹ چند فی صد سے وہ میرٹ پر نہ آ سکی۔ یہ این ٹی ایس داخلہ ٹیسٹ صرف اور صرف دھوکا ہے، میرٹ تو کالج انتظامیہ بناتی ہے اور یہ اسی نے طے کرنا ہوتا ہے کہ کس کو داخلہ دینا ہے۔