مائنڈ سیٹ۔ رجحان۔ اور سیکولر ذہنیت 

283

سیکولر عناصر نے بعض الفاظ اور محاوروں کو اتنا بدنام کردیا ہے کہ ان کے اصل معنی ہی گم کردیے اور ان کے مثبت پہلو کو ہی مشکوک بنا دیا ہے جیسے کہ انگریزی کا لفظ مائنڈ سیٹ (Mindset)ہی کو لے لیجیے جب بھی کسی فرد تنظیم یا جماعت کی طرف سے اسلام اور اس کے احکامات کے پہلو اجاگر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو ایک بھپتی کسی جاتی ہے کہ یہ اس طرح کا مائنڈ سیٹ ہے حالاں کہ مائنڈ سیٹ کے بغیر کوئی بھی شخص جماعت یا تنظیم ایک قدم آگے بڑھنا تو درکنار اپنا کام بھی شروع نہیں کر سکتی کیوں کہ کسی بھی کام کے کرنے سے پہلے ذہن بنانا پڑتا ہے کہ ہم جو کام کرنے جا رہے ہیں وہ کتنا مبنی بر حق ہے اور کتنا انفرادی اور معاشرتی لحاظ سے سود مند ۔ اس کے ہر ہر پہلو پر غور کیا جاتا ہے اور مستقبل کی نقشہ بندی کی جاتی ہے تاکہ کام کو اسی انداز میں شروع کیا جائے یہی نہیں بلکہ ایک نظر ان خدشات اور معاملات پر بھی ڈالنی پڑتی ہے کہ اس راہ میں کتنی دشواریاں اور مشکلات پیش آ سکتی ہیں اور یہی عقل مندی اور انسانی فطرت کے عین مطابق ہی نہیں بلکہ ایک طرح کی مجبوری بھی ہے اگر کوئی اس طرح کا ہوم ورک کیے بغیر میدان میں کود پڑے تو لوگ اس کو یہی سمجھائیں گے کہ بھائی پہلے سے اپنا ہوم ورک کیوں نہیں کر کے رکھا، اناڑیوں کی طرح چھلانگ لگا دی تو نقصان تو ہونا ہی تھا اتنی کھلی شہادت اور حقیقت کے باوجود سیکولر عناصر اسلام کا دفاع کرنے والوں پر یہ بھپتی کسنے سے باز نہیں آتے، اپنے گھر ہی سے اس بات کو شروع کر لیں کہ جب اولاد سن شعور کو پہنچنا شروع ہوتی ہے تو دیکھا جاتا ہے کہ اس کا رجحان کس طرف ہے اور پھر خود اس سے ہی پوچھ لیا جاتا ہے وہ بڑا ہو کر کیا بننا چاہتا ہے، یہ اس لیے کیا جاتا ہے کہ کسی بچے کو زبردستی کسی بھی کام میں نہیں جھونکا جا سکتا کہ بس ابا کی خواہش ہے کہ بیٹا ڈاکٹر بنے حالاں کہ بچے کا رجحان بتارہا ہوتا ہے کہ وہ ایک اچھا وکیل یا ایک اچھا صحافی بن سکتا ہے اس کی آواز اور زبان کی روانی بتا رہی ہوتی ہے وہ ایک اچھا نیوز ریڈر بن سکتا ہے لیکن ان باتوں کے برعکس بچے کو زبردستی ڈاکٹر بننے پر مجبور کیا جاتا ہے جب ہم اپنے گھر میں اس بات کو قبول نہیں کر سکتے کہ اولاد کو اس کے رجحان سے ہٹا کر کسی اور جانب دھکیلنے کی کوشش کریں تو پھر عملی زندگی میں قدم رکھنے کے بعد ہم کس طرح کسی کو یہ بھپتی کس سکتے ہیں کہ اس کا تو مائنڈ سیٹ ہی ایسا ہے۔ لیکن اگر یہی بات سیکولرز کے بارے میں کہی جائے کہ ان لوگوں کا بھی ایک مائنڈ سیٹ ہے کہ بس کسی نہ کسی طرح اسلام بلکہ عملی اسلام کی نفی کرنی ہے آخر انہوں نے بھی تو کہیں سے یہ تربیت حاصل کی ہوگی اور ان کا اسلام مخالف ذہن بنانے پر کسی نے تو محنت کی ہوگی یا اچانک کوئی اپنے گھر سے نکل کر ٹی وی چینل پر آ دھمکے اور اسلام کے خلاف اپنے خیالات کا پرچار کرنا شروع کر دے۔ ہم بھی تو یہ بات کہہ سکتے ہیں کے بھائی آپ بھی تو ایک مائنڈ سیٹ رکھتے ہیں جس کا برملا اور ببانگ دہل اظہار آپ اسکرین پر بیٹھ کر کرتے ہیں۔
یہاں تک تو بات اختیاری ہو گئی لیکن اگر فطری رجحان کو زیر بحث لایا جائے تو انسان میں دو طرح کے رجحانات پائے جاتے ہیں نفس عمارہ اور نفس لوامہ نفس عمارہ انسان کو برائی کی طرف رجوع کرنے پر مجبور کرتا ہے تو نفس لوامہ انسان کو نیکی کی طرف راغب کرتا ہے یہ بالکل پیدائشی رجحان ہوتا ہے ابھی انسان مذہب کی طرف نہیں بڑھا اور ابھی اس کا دین بھی پختہ نہیں ہوا سوائے اس کے کہ وہ جس گھرانے میں پیدا ہوا ہے اس گھرانے کا آبائی مذہب کیا ہے۔ یہ جو مختصر سی بات قارئین کے گوش گزار کرنے کی کوشش کی گئی ہے یہ تخیلاتی سے زیادہ تجرباتی حقائق پر مبنی ہے دنیا کے بہت سے ملکوں میں مختلف مذاہب کے لوگوں کے قریب رہنے سے یہ تاثر پختہ ہو گیا کہ انسان میں نفس عمارہ اور نفس لوامہ بدرجہ اتم موجود ہوتا ہے امریکا جیسے ملک میں جہاں نفسا نفسی عروج پر دکھائی دیتی ہے۔ وہاں رشتوں کی جس طرح پامالی ہو رہی ہے رشتوں کی حرمت کو ڈالروں تلے جس طرح روندا جا رہا ہے خاندانی نظام جس طرح برباد ہو رہا ہے اور ایک انسان دوسرے انسان سے کس قدر دوری رکھنا چاہتا ہے وہ ایک الگ موضوع ہے لیکن اس کے باوجود انسان کے ان دو مثبت اور منفی نفوس کا بھی قدم قدم پر مظاہرہ دیکھا جا سکتا ہے۔ انسان بنیادی طور پر ایک ذمے دار اور با اختیار مخلوق بنا کر پیدا کیا گیا ہے اور وہ انہیں دونوں کو اپنی زندگی میں بروکار لانے کی فطری خواہش رکھتا ہے اس کو کسی جانور کی طرح بس کھانے پینے اچھی رہائش اور جنسی ضروریات مہیا کر دینے کی حد تک محدود نہیں رکھا جا سکتا جیسا کہ مغرب میں عموماً اور امریکا میں خصوصاً دیکھا جا سکتا ہے۔ راقم سے بہت سے امریکیوں نے یہی ایک سوال بہت تواتر سے کیا کہ ’’ہماری زندگی کا مقصد کیا ہے؟‘‘
اور یہ کہ: ’’ہم پیدا ہی کیوں کیے گئے ہیں؟‘‘ ان دو جملوں پر اکثر غور کرتا رہتا تھا کہ سب کچھ ہونے کے باوجود ان کے چہروں پر طمانیت کا وہ احساس نہیں ہے، وہ شگفتگی نہیں ہے وہ چہروں پر خوشی نہیں ہے جو ہر قسم کی دنیاوی راحت اور آسانیاں حاصل کرنے کے بعد حاصل ہو سکتی ہیں لیکن یہ ناچیز اس نتیجے پر پہنچا کہ اس بے چینی اور عدم طمانیت کی اصل وجہ ان کی وہ انفرادی اور تنہائی میں بسر کی ہوئی زندگی ہے جو انسان کی فطرت سے ہٹ کر ہے انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ کسی کا تابع ہو کسی پر اپنے اختیار کو استعمال کر سکتا ہو کوئی اس کی طرف متوجہ ہو وہ کسی کی طرف متوجہ ہو وہ کسی کی ذمے داری ہو۔ کوئی اس کی ذمے داری ہو زندگی میں وہ کسی کے لیے جدو جہد کرے کوئی اس کے لیے جدو جہد کرے، وہ کسی کو پالے کوئی اس کو پالے اور اسی طرح کے بے شمار معاملات انسانوں کے انسانوں کے درمیاں قائم رہیں رشتوں کا احترام ہو رشتوں کی زنجیروں میں لوگ بندھے ہوں رشتوں کی پاس داری کی جائے رشتوں کو مستحکم اور مربوط کیا جائے خاندانی نظام کو پروان چڑھایا جائے خاندان کو بڑھایا جائے نسل کی اور فرد کی کوئی شناخت ہو قبیلے اور ملکوں کی ثقافت ہو کوئی کلچر کوئی تہذیب کوئی تمدن ہو یہ سب انسان کی فطرت کے ساتھ اسی طرح پیوست ہیں جس طرح اس کی رگِ جاں اس کے حلقوم میں پیوست کر دی گئی ہے نیکی اور بدی کو کس طرح انسان کے اندر الہام کردیا گیا ہے۔ یہ قرآن کریم سے ثابت ہے۔
ترجمہ: پھر اس کی بدی اور اس کی پرہیز گاری اس میں الہام کردی گئی۔ فلاح پا گیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا جس نے اس کو دبا دیا۔