میڈیکل کالجز کی قلت صحت کے مسائل کا سبب

425

پرائیویٹ کالجز مافیا اونچی دْکان پھیکا پکوان ہے‘ خدمت کم کاروبار زیادہ ہے‘
الخدمت فائونڈیشن کو ایک نجی میڈیکل کالج بھی کھولنا چاہیے

انٹری ٹیسٹ سے متاثرہ 65 ہزار طلبہ اور ان کے والدین کی ترجمانی کون کرے گا؟ آخر کسی کو تو آگے آنا ہوگا۔ نقل کے رحجان اور تعلیمی معیار پر اُٹھنے والے سوالات بہت اہم ہیں، اس میں کون ملوث ہیں، کون ذمے دار ہیں اور کس کو کس نے قانون کے شکنجے میں لانا ہے یہ بھی کوئی رازنہیں ہے۔ ایک مضبوط نیٹ ورک ہے جسے توڑنا بہت ضروری ہے۔ ملک کی پارلیمان اور قانون ساز ادارے اس جانب توجہ ہی نہیں دے رہے کہ بہت سے نجی میڈیکل کالجز کے مالکان پارلیمان کا حصہ ہیں یا سیاسی جماعتوں کے اہم عہدیدار ہیں اور ان میں بہت سے ایسے ہیں جو میڈیا جیسی بے لگام انڈسٹری میں شامل ہوچکے ہیں۔ لہٰذا ان کے مقابل کوئی آواز اٹھائی جاسکتی ہے اور نہ اسے کوئی اہمیت مل سکتی ہے۔ حال ہی میں ایک پہلو سامنے آیا بلکہ کچھ گرفتاریاں بھی ہوئی ہیں کہ لاکھوں روپے لے کر انٹری ٹیسٹ پاس کروانے والا مافیا چند افراد پر مشتمل نہیں تھا ان کا مضبوط نیٹ ورک تھا۔ افسوسناک پہلو سامنے آیا ہے کہ جو افراد گرفتار ہیں وہ بھی وی آئی پی پروٹوکول کے ساتھ وقت گزار رہے ہیں۔ ان کو شامل تفتیش نہیں کیا جا رہا۔ امتحانی سینٹر پر جو عملہ سالہا سال سے نگران کی حیثیت سے ذمے داری ادا کررہا ہے ان کا نیٹ ورک موجود ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ تمام امتحانی مراکز پر بیشتر ممتحن وہی ہوں گے جو گزشتہ کئی برس سے یہ ’’ذمے داری‘‘ ادا کر رہے ہیں۔ ان کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ انٹری ٹیسٹ کا پرچہ لیک کرنے سے لے کر امتحانی مراکز میں معاونت کرنے والا عملہ، اکیڈمی مالکان، اساتذہ ،امتحانی عملہ، تمام نیٹ ورک کو توڑنے اور ان کو کیفر کردار تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔ پتا چلا ہے کہ پرائیویٹ میڈیکل کالجز کے مالکان پھر سرگرم ہو گئے ہیں کہ ہماری فیسیں کم ہیں، اخراجات زیادہ ہیں،

سالانہ فیس 642000 روپے سے بڑھا کر 8لاکھ کرنے اور سالانہ 7فیصد اضافہ کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ معلوم ہوا ہے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل(PMDC) کو یہ تجویز پرائیویٹ میڈیکل کالجوں نے پیش کی ہے۔ اس پر PMDC نے سمری بنا کر منظوری کے لیے وفاقی حکومت کو ارسال کر دی ہے جو پہلے مرحلے میں مسترد کر دی گئی،مگر پرائیویٹ میڈیکل کالجز مافیا جو ارکان اسمبلی اور سینیٹرز سے تعلقات رکھتا ہے مایوس نہیں ہے۔ اخراجات کا رونا روتے ہوئے ہر صورت فیسوں میں اضافہ کرانے کے لیے منصوبہ بندی میں مصروف ہے۔ زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے پرائیویٹ کالجوں کی سالانہ فیس 6لاکھ 42 ہزار سے کم کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بات کون نہیں جانتا کہ اس ملک میں مہنگی تعلیم کے باعث میٹرک اور پھر انٹر میڈیٹ تک ہر غریب طالب علم کے والدین کی کمر ٹوٹ جاتی ہے لیکن ان کا کوئی پرسان حال ہی نہیں اور ریلیف دینے کے بجائے پی ایم ڈی سی اور پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کے درمیان گٹھ جوڑ اور پرائیویٹ کالجوں کی فیس بڑھانے کی تجاویز نے والدین کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔ والدین کی تجویز ہے کہ سرکاری میڈیکل کالجوں میں سیکنڈ شفٹ شروع کی جائے، اس کی گنجائش سرکاری کالجوں میں موجود ہے لیکن کوئی صوبائی حکومت دلچسپی نہیں لے رہی کیوں کہ نجی میڈیکل کالجز کے مالکان رکاوٹ ہیں۔ حالانکہ سیکنڈ شفٹ کے لیے والدین پیسے دینے کے لیے تیار ہیں۔ سیکنڈ شفٹ کے لیے سیلف فنانس اسکیم بھی ہوسکتی ہے مگر فیس بھی حد سے باہر نہ رکھی جائے۔سیکنڈ شفٹ اگر سرکاری میڈیکل کالجوں میں شروع ہو جائے تو مزید 4 ہزار طلبہ و طالبات داخل ہو سکتے ہیں۔والدین کی طرف سے پنجاب حکومت کو بالعموم اور وفاقی حکومت کو بالخصوص توجہ دلائی گئی ہے۔ اس حوالے سے جاگتے رہنے کی ضرورت ہے۔ پرائیویٹ میڈیکل کالج خدمت یا عبادت نہیں کر رہے، بلکہ کاروبار کر رہے ہیں ان کی سخت نگرانی کرنے سمیت آڈٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ پرائیویٹ کالجز مافیا اونچی دْکان پھیکا پکوان سے زیادہ نہیں ہے،

خدمت کم کاروبار زیادہ کر رہے ہیں۔ ان کے گرد گھیرا تنگ کرنے سے معاملات کسی حد تک بہتری کی جانب جانے کی امید کی جا سکتی ہے۔ نجی میڈیکل کالجز کی نشستیں کتنی ہیں، داخلہ کتنی نشستوں پر کر رہے ہیں، اساتذہ کتنے ہیں، لیب کتنی ہیں، زمین کتنی ہے، گراؤنڈ کتنے ہیں، ہاسٹل کتنے ہیں، ان سب امور کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ سب کچھ دیکھنے کے بعد اگر ثابت کر دیں کہ اخراجات زیادہ ہیں، آمدن کم ہے تو فیسیں بڑھانے میں حرج نہیں ہے۔ سالانہ 7 فیصد اضافے کی تجویز ظلم ہے، 5 سال بعد سالانہ فیس 12 لاکھ تک چلی جائے گی۔ وفاقی حکومت کو نوٹس لینا چاہیے۔ PMDC اور پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کے گٹھ جوڑ کے بعد سامنے آنے والی تجویز کو مسترد کرتے ہوئے پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کی فیس کم کرنی چاہیے اور سرکاری میڈیکل کالجوں کی تعداد میں اضافہ کرنا چاہیے اور ان کی صبح کی نشستوں میں اضافہ اور سیکنڈ شفٹ کا آغاز کرنا چاہیے۔ یہ وقت کی ضرورت بھی ہے اور ہزاروں والدین اور لاکھوں طلبہ کا مطالبہ بھی۔ مگر اس پر عمل کون کرے گا؟