نواز شریف نے چودھری نثار کا خاموش رہنے کا مشورہ مسترد کردیا

368

اسلام آباد (رپورٹ: میاں منیر احمد) مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما سابق وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے نواز شریف پر کھل کر واضح کردیا ہے کہ جارحانہ سیاست کرنے پر پارٹی کی فرنٹ لائن پر کام نہیں کریں گے اور پارٹی میں رہتے ہوئے پچھلی صفوں میں چلے جائیں گے ،چودھری نثار اور نواز شریف کی حالیہ اہم ملاقات کے بعد مسلم لیگ میں تقسیم بڑھ جائے گی ۔ چودھری نثار نے سابق وزیر اعظم سے پنجاب ہاؤس میں ملاقات میں پارٹی امور اور ان کے خلاف مقدمات اور عدالتوں میں پیشی سمیت پارٹی کی سیاسی حکمت عملی پر پوری طرح کھل کر گفتگو کی ہے اور گلہ کیا ہے کہ مفاہمت کے لیے کی جانے والی کوششیں جارحانہ حکمت عملی کے باعث کامیاب ہوتے ہوتے ناکام ہورہی ہیں ،مفاہمت کے لیے ضروری ہے کہ خاموشی اختیار کی جائے لیکن ان کا یہ مشورہ تسلیم نہیں کیا گیا ۔یہ ملاقات اس ماحول میں ہوئی کہ جب پارٹی میں ایک سوچ بڑھ رہی تھی کہ نواز شریف کچھ عرصے کے لیے پارٹی امور سے الگ ہوجائیں اور بیرون ملک اپنا قیام بڑھا دیں اور وہیں رہیں لیکن نواز شریف نے لندن میں ہونے والی پارٹی رہنماؤں کے ساتھ حالیہ ملاقاتوں میں واضح کردیا ہے کہ وہ اپنے اوپر لگنے والے نا اہلی کے الزام کو ہر قیمت پر ختم کرانا چاہتے ہیں اور اس کے لیے عدالت سے ہونے والی سزا کے بعد جیل جانے کے لیے بھی تیار ہیں اور کسی قسم کا کوئی سمجھوتا نہیں کیا جائے گا ۔چودھری نثاراور ان کے ہم خیال رہنماؤں نے پارٹی قیادت پر واضح کردیا ہے کہ مفاہمت کی سیاست کی جائے بہتر نتائج مل سکتے ہیں اور جارحانہ سیاست کی گئی تو نقصان ہوسکتا ہے اور جارحانہ سیاست میں وہ پارٹی قیادت کے قدم کے ساتھ قدم ملاکر نہیں چل سکتے۔ مسلم لیگ (ن) کے ذمے دار ذرائع کے مطابق چودھری نثار کا خیال ہے کہ ہم اگر مفاہمت کی طرف ایک قدم بڑھاتے ہیں تو نواز شریف کا کوئی جارحانہ بیان ہمارے سارے کیے کرائے پر پانی پھیر دیتا ہے، اگر چہ یہ بات تسلسل کے ساتھ کی جارہی ہے کہ شریف خاندان متحد ہے لیکن شریف خاندان میں مریم نواز اور نواز شریف ایک پیج پر ہیں جب کہ شہباز شریف‘ حمزہ شہباز اور سلمان شہباز مفاہمت اور مصلحت کے حامی ہیں ۔مسلم لیگ(ن) کی سینئر لیڈر شپ میں شامل پارٹی رہنما نے بتایا کہ نواز شریف اس بار کسی سینئر پارٹی رہنما پراعتبار کرنے کو تیار نہیں ہیں اور چاہتے ہیں کہ پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی سیاست کے حوالے سے وہ تمام آپشن اپنے پاس رکھیں اور فیصلے کا اختیار بھی وہ کسی کو دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔