مغرب میں آج بھی عورت مرد کے مقابلے میں۲۱۷ سال پیچھے ہے 

471

جس طرح مشرق اور مغرب میں دہشت گردی کی تعریف دو قطبین کی دوری پر ہیں اسی طرح حقوق اور خاص طور پر عورت کے حقوق کے حوالے سے ان دونوں کی تشریحات میں مشرق و مغرب کا بُعد پایا جاتا ہے۔ درج بالا عنوان جسارت میں شائع ایک خبر سے لیا گیا ہے۔ مغرب کی نظر میں حقوق سے کیا مراد ہے اگر اس کی مراد شخصی آزادی اور جنسی آزادی ہے تو وہ تو مغرب میں بھرپور انداز میں بلا تفریق صنف دی جا چکی ہے ایک عورت کو شادی کے باوجود دوسرے مرد سے تعلقات استوار کرنے کا ’’حق‘‘ حاصل ہے، اسی طرح ایک مرد کو ایک قانونی اور دیگر بلا قانونی ازدواج رکھنے کا بھی ’’حق‘‘ حاصل ہے تو پھر ان کے نقطہ نظر سے حقوق کا ٹکراؤ کہاں ہو رہا ہے جس کی خلیج کو عبور کرنے کے لیے مزید ۲۱۷ سال اور درکار ہوں گے یہی نہیں قریباً دنیا کے ہر گوشے میں بشمول اسلامی ممالک خواتین کو ہر طرح کے ذریعہ معاش اختیار کرنے کی آزادی ہیوہ کاروبار کر سکتی ہیں، اپنا پیسہ سرمایہ کاری میں لگا سکتی ہیں، ذاتی مکان اور کاروبار کی مالکہ بن سکتی ہیں، آزادانہ سفر کر سکتی ہیں۔ تعلیم حاصل کر سکتی ہیں اور ہر طرح کے باعزت پیشے سے منسلک ہو سکتی ہیں۔
بات دہشت گردی کی تعریف کی ہو رہی تھی تو اس کا اندازہ لگانے کے لیے مغرب کا رویہ ہی ان کے دل کی بات کہتا نظر آتا ہے اگر امریکا میں کوئی گورا امریکی ایک ہی حملے میں ساٹھ امریکیوں کو قتل اور 80 سے زائد کو زخمی کردے تو یہ ذہنی مریض یا ذہنی دباؤ کا نتیجہ قرار دیا جاتا ہے۔ اگر کوئی مسلمان غلطی سے یا گاڑی بے قابو ہونے کی وجہ سے پانچ چھ افراد کی موت کا ذمے دار ہو تو وہ دہشت گرد قرار دے دیا جاتا ہے، اسی طرح یورپ میں فرانس، جرمنی، برطانیہ یا کسی بھی یورپی ملک میں کوئی خبطی درجنوں افراد کو قتل کردے اسکولوں میں گولیاں چلا کے معصوم بچوں کی جانیں لے لے تو اس کو بھی ذہنی مریض کہہ کر معاملے کو دبا دیا جاتا ہے۔ امریکا اور یورپ میں کوئی کارروائی اس وقت تک دہشت گردی کے زمرے میں نہیں آ سکتی تا آں کہ اس میں کوئی مسلمان ملوث نہ ہو۔ خود امریکا بہادر دنیا بھر کے مسلمان ملکوں میں بد ترین قتل عام کر رہا ہے اور اس کا طریقہ واردات تو سب کو ہی معلوم ہے۔ پہلے وہ ایک اسکرپٹ تیار کرتا ہے کہ اسلام کے نام پر ایک ایسی تنظیم بنائی جائے جو مغرب کے اسلام کے پھیلنے کے بیانیے سے مطابقت رکھتی ہو یعنی اسلام زبردستی اور تلوار کے زور پر پھیلا ہے اور یہ کہ اسلام ایک متشدد مذہب ہے، داعش کو ہی لے لیجیے کہ اس کا کام صرف لوگوں کے سر تن سے جدا کرنا ہی رہ گیا ہے حالاں کہ اس طرح کی جہالت کا اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں لیکن کیوں کہ مغرب نے اپنے شہریوں کو یہی پڑھایا ہے کہ اسلام اس طرح پھیلا ہے پھر اس کی بیخ کنی کے بہانے امریکا اس علاقے میں چڑھائی کر دیتا ہے جب کہ مقصد صرف اور صرف مسلمانوں کو قتل کرنا ہوتا ہے یہی کھیل افغانستان سے لیکر شام تک بڑی بے شرمی سے کھیلا جا رہا ہے۔
مغرب میں عورتوں کے حقوق کے حوالے سے جس قدر کوتاہ نظری کا مظاہرہ کیا جاتا رہا ہے اور کیا جا رہا ہے اس کو اگر مادر پدر آزادی کے کمبل سے نکال کر دیکھیں تو بآسانی کہا جا سکتا ہے کہ مغرب میں عورت کے ساتھ دنیا بھر میں سب سے زیادہ استیصال کیا جا رہا ہے کہ اس کو معاشرتی آزادی دے کر اور یہ کہہ کر بہلایا جاتا ہے کہ تم اب آزاد ہو کوئی مرد خواہ تمہارا شوہر ہو، باپ ہو یا بھائی ہو اب تم پر کوئی حکم نہیں چلا سکتا اورتم یہاں تک آزاد ہو کہ اپنے باپ اور بھائی کی موجودگی میں اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ شب باشی بھی کر سکتی ہو اگر کوئی روکے تو پولیس کو اطلاع کر دو پھر دیکھو چند منٹوں میں وہ پابندِ سلاسل ہوگا۔ پھر یہ کہ تمہاری کمائی پر کسی کا کوئی حق نہیں ہے، ایسی آزادی تو چند صدیوں قبل تک تو مغرب کی عورت کے وہم و گمان تک میں نہ ہوگی۔ عورت اس آزادی اور حقوق کی سازش کو سمجھنے سے قاصر رہی اور یہ نہ سوچا کہ ایسی بے ہنگم آزادی اور حقوق کے ساتھ ہی اس کا خاندانی نظام تہ و بالا ہونے والا ہے کوئی مانے یا نہ مانے خاندان تو بس عورت سے ہی آباد ہوتے ہیں اگر عورت در بدر ہوجائے تو خاندان کو بکھرتے لمحہ نہیں لگتا اور چند دہائیوں کی آزادی نے وہ کچھ ثابت کردیا جس کے تصور ہی سے روح کانپ جاتی ہے۔
یہ انسان کی سب سے بڑی خوبی ہے کہ وہ اپنی عزت نفس کا ہر طور پر دفاع چاہتا ہے اور اس کو برقرار رکھنے کی حتی المقدور کوشش بھی کرتا ہے اور معاشرے سے بھی اس کا تقاضا کرتا ہے چاہے اس کو پیٹ بھر کھانا نہ ملے رہنے کو جھونپڑا ہی دستیاب ہو پہنے کو معمولی کپڑے ہی کیوں نہ پہن سکے مگر وہ اس وقت بہت مطمئن نظر آتا ہے جب اس کو یہ احساس ہو کہ اس کی عزت نفس محفوظ ہے اور کسی بھی سطح پر اس کے مجروح ہونے کا خدشہ نہیں ہے عورت بھی اسی معاشرے کا حصہ ہوتی ہے اس کی بھی فطری خواہش ہوتی ہے کہ اس کی عزت نفس مجروح نہ ہونے پائے۔ اب سوال یہ ہے کہ عورت کی توقیر اور عزت نفس کا تحفظ کون کرے، اور اس کو معاشرے میں باعزت مقام دلانا کس کی ذمے داری ہے گھر میں عزت محفوظ اور گھر سے باہر عزت محفوظ ہو تو عورت روکھی سوکھی پر بھی گزارا کر سکتی ہے شاید مغرب کے دانشوروں کے دماغ کے کسی گوشے میں یہ بات گھوم رہی ہے کہ عورت کو مرد کی جائداد میں حصہ کب مل سکے گا۔ بیٹی کے وراثت کے مسائل کیسے حل ہو سکتے ہیں ماں، بیوی، بہن اور دیگر قرابت کی خواتین کو ان کے گھروں میں مردوں کے مساوی حقوق کب مل پائیں گے انہوں نے جو حساب لگایا اس کی رو سے ابھی عورت کو مردوں کے برابر حقوق حاصل کرنے کے لیے دو سو سال سے زائد کا عرصہ انتظار کرنا پڑے گا۔ یہ اس بات کی بھی غمازی کرتی ہے کہ مغربی معاشرے پر اب تک مرد کی اجارہ داری قائم ہے اور وہ عورت کو ان ’’مردانہ‘‘ حقوق کے قریب بھی پھٹکنے نہیں دے رہا پھر اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ آنے والی صدیوں میں مرد عورت کو اپنے برابر کھڑا کرنے پر تیار ہوگا اگر مغرب کا معاشرہ اسی طرح انحطاط کا شکار رہا تو اس وقت تک تو عورت کی ہیت کیا ہو چکی ہوگی؟ پھر اس وقت کا کوئی دانشور یہ کہے گا کہ عورت کو مردوں کے برابر حقوق حاصل کرنے کے لیے مزید پانچ سو سال انتظار پڑنا پڑے گا۔ ایک بات اور بڑی اہم ہے کہ اسلام سے پہلے بھی عورت عتاب کا شکار تھی اور زندہ درگور کر دی جاتی تھی اور اسلام کے آنے کے بعد بھی جہاں اسلام کے مطابق معاشرہ قائم نہیں عورت ہی ہر قسم کی زیادتی کا شکار نظر آتی ہے لیکن مسلم معاشرے میں عورت کی جو عزت و توقیر کی جاتی ہے اور اس کو گھر سے لیکر دفتر تک اور بازار سے لیکر تعلیمی ادارے تک عز ت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور جو عورت گھر کی چہار دیواری میں رہنا پسند کرتی ہے اس کی عزت و توقیر کو تو جیسے چار چاند لگ جاتے ہیں کیوں کہ آج کے اس ماڈرن دور میں بھی عورت کو نوکری کے لیے گھر سے نکلنے کو معیوب سمجھا جاتا ہے مگر اس کے باوجود اس کا ہر ہر قدم پر لحاظ رکھا جاتا ہے اس معاشرے کی داغ بیل اسلام میں عورت کے تفویض کردہ حقوق سے ڈالی گئی ہے کہ عورت اپنے مال کی تنہا مالک ہے مرد اس کے مال کا تقاضا نہیں کر سکتا جب کہ مرد عورت کو تحفے میں چاہے محل ہی کیوں نہ دیدے طلاق کی صورت میں وہ محل واپس لینے کا مجاز نہیں عورت کسی بھی رشتے سے وراثت سے محروم نہیں کی گئی یہاں تک کہ نانا اور دادا کی جائداد میں بھی حق دار ٹھیرائی گئی ہے اور گھر کے ہر مرد کی یہ اخلاقی اور شرعی ذمے داری لگا دی گئی ہے کہ وہ عورت جس سے اس کا کسی بھی سطح کا رشتہ ہو کے حقوق ادا کرے اور اس کے تحفظ اور عزت و آبرو کے ساتھ زندگی گزارنے کے لیے بندوبست کرے مگر عورت سے اس طرح کے کسی قسم کا مطالبہ اسلام نے نہیں کیا ہے اسی لیے تو اسلامی معاشرے میں عورت کو گھر کی ملکہ اور بہو رانی کہا جاتا ہے۔ جب کہ مغرب میں تو باپ اپنی بیٹی سے کمرے کا کرایہ تک مانگ لیتا ہے اور اگر کوئی زیادہ کرایہ دینے پر آمادہ ہو تو وہ بیٹی سے کمرہ خالی کرنے کو کہتا ہے۔ جس عورت کی اس کے گھر میں اس بری طرح حق تلفی ہو اس کو معاشرہ کیا خاک عزت و توقیر سے نوازے گا۔ مغرب کے دانشوروں کو ہمارا مشورہ ہے کہ وہ اپنی عورتوں کو وہی حقوق دے دیں جو شریعت اسلامی نے عورتوں کے لیے تفویض کیے اور اس کی عزت نفس کو بحال کریں اور اس کی عزت و توقیر کا بندوبست کریں اس طرح اس بات کا امکان ہے کہ ان کو عورت کے لیے مردوں کے مساوی حقوق کے لیے دو صدیوں تک انتظار کی زحمت نہ اٹھانی پڑے۔