کراچی(رپورٹ:قاضی عمران احمد)سالانہ 30 سے 40 فی صدافرادچھالیہ کے استعمال سے کینسر کی مختلف اقسام کا شکار ہو جاتے ہیں، چھالیہ کے استعمال سے بیماریوں کا شکار ہونے والے 100 میں سے دو افراد منہ کے کینسر کی مختلف اقسام کا شکار ہوتے ہیں، چھالیہ پر پابندی لگا کر اربوں روپے بچائے جا سکتے ہیں، چھالیہ سے بننے والی تمام اشیاء کینسر سمیت ہلاکت خیز بیماریوں کا مؤجب بن رہی ہیں۔،سندھ حکومت نے گٹکا بنانے، بیچنے اور کھانے والوں کے خلاف قانون سازی تو شروع کر دی ہے لیکن تاحال شہر میں گٹکا فروخت ہو رہا ہے، پابندی ان تمام مضر صحت اشیاء کی تیاری میں استعمال ہونے والی چھالیہ کی درآمد پر لگائی جانی چاہیے، گٹکا کھانے سے کھانسی سے لے کر کینسر تک متعدد بیماریاں لاحق ہو سکتی ہیں۔ ان خیالات کا اظہار پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے مرکزی سیکرٹری جنرل ڈاکٹر سید محمد قیصر سجاد نے ’’جسارت‘‘ سے خصوصی بات چیت کے دوران کیا۔ ڈاکٹر ایس ایم قیصر سجاد کا کہنا تھا کہ چھالیہ ہی تمام بیماریوں کی اصل جڑ ہے، چھالیہ کتنا اچھی اور صاف ستھری کیوں نہ ہو اس سے بننے والا جوس منہ کا کینسر، منہ میں چھالے پیدا کرتا ہے، صرف یہی نہیں بلکہ اس سے ’’سب نیوکس فائبروسس‘‘ کی بیماری (جو کینسر سے بھی کئی گنا خطرناک ہے) میں مبتلا ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ ڈاکٹر ایس ایم قیصر سجاد کا کہنا تھا کہ کینسر اگر ابتدائی اسٹیج پر ہو تو اس پر سو فی صد قابو پایا جا سکتا ہے مگر ’’سب نیوکس فائبروسس‘‘ کی بیماری لگ جائے تو اس کا کوئی علاج تا حال موجود ہی نہیں ہے، ’’سب نیوکس فائبروسس‘‘ میں منہ کے اوپر نیچے کے دونوں جبڑوں کے درمیان قدرتی فاصلہ ختم ہو جاتا ہے اور منہ بند ہوجاتا ہے اور مریض کوئی بھی ٹھوس غذا کھانے سے محروم ہو جاتا ہے۔ لیاری ہو یا نیو کراچی، سرجانی ہو یا محمود آباد، ملیر ہو یا لانڈھی یا کورنگی، لیاقت آباد، ناظم آباد ہو یا گولیمار، گل بہار ہو یا اورنگی ٹاؤن ہر جگہ اب کھلے عام نہیں تو چھپ چھپا کر گٹکا مہنگے داموں مل رہا ہے۔ سندھ حکومت نے گٹکا بنانے اور بیچنے والوں کے بعد کھانے والوں کے خلاف بھی قانون سازی شروع کر دی ہے۔ گٹکا کھانے کی سزا پچیس ہزار سے ایک لاکھ روپے تک ہو گی جب کہ بنانے والے کو ایک لاکھ سے سات لاکھ جرمانے کے ساتھ جیل بھی جانا ہو گا۔ طبی ماہرین کہتے ہیں کہ یہ حکومت کا اچھا اقدام ہے لیکن اس پر عمل درآمد کا فقدان نظر آتا ہے، گٹکے کے ساتھ ساتھ چھالیہ کی فروخت اور کھانے پر پابندی پر سختی سے عمل درآمد کرایا جائے تو ہی اس زہر سے نوجوان نسل کو بچایا جا سکتا ہے۔