جلد بازی میں پورے دیگ الٹ گئی

366

ایم کیو ایم اور پی ایس پی اتحاد سے کس کو فائدہ ہوگا اور کس کو نقصان، یہ سوال الگ بھی ہے اور معاملہ طویل بحث طلب بھی۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کرنے کی ضرورت کسی ایک پارٹی کو ہے یا پھر ’’ان دیکھی قوتوں‘‘ کو۔ کراچی کی سطح پر جو کچھ بھی کیا گیا ہے اور جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس کا طریقۂ کار اتنا بھونڈا ہے جس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ یہی وہ بھونڈا انداز ہے جس کا سلسلہ 1992ء سے جاری ہے۔ پارٹیاں صرف اپنا شک ظاہر کرکے بات کو بتانے کے باوجود بھی چھپا جایا کرتی تھیں یا سب باتیں اشاروں کنایوں ہی میں ہوا کرتی تھیں۔ براہِ راست کسی کی یہ جرأت کبھی نہیں ہوئی کہ وہ حقیقتِ حال بیان کرے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ وہ پارٹی جس کے متعلق سب کو یہ گمان یقین کی حد تک تھا کہ اس کولانچ کرنے میں اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہے، وہ زور خطابت میں خود ہی سارا بھانڈا پھوڑ گئے۔
کراچی کی سیاست میں ہونے والی برق رفتار تبدیلیاں دیکھ کر ایسا لگا کہ اس شہر کی کچی پکی سیاسی ڈش کھلانے کی جلدی میں دیگ ہی الٹ گئی ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے رہنما فاروق ستار نے اس سیاسی ملغوبے کی تیاری میں ناکامی کا ملبہ اپنے سر تھوپنے کی کوشش بھی جس مہارت اور سرعت سے ناکام بنائی وہ بھی دیدنی تھی۔ ادھر سیاسی اتحاد کی ہانڈی ابھی چولھے پر چڑھی بھی نہیں تھی کہ دبئی میں تشریف فرما سابق فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے اس کا خیر مقدم بھی کر دیا۔ سابق گورنر سندھ، عشرت العباد کی بانچھیں بھی کھل گئیں۔ لیکن ہوا یوں کہ ابھی ایک رات کے بعد سورج نے اپنی تمازت کا مظاہرہ بھی نہیں کیا تھا کہ فاروق ستار نے ایسی قلابازی کھائی کہ پی ٹی آئی کے سربراہ بھی انگشت بدنداں رہ گئے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ’’آئی ایس پی آر‘‘ کی جانب سے یہ بیان ضرور سامنے آیا کہ افواج پاکستان کا اس ساری سیاست سے کوئی تعلق نہیں لیکن یہ بیان ہر قسم کے ’’سیاق و سباق‘‘ سے کورا ہے۔ کراچی کی سیاست میں یہ دونوں ’’رد عمل‘‘ چولی دامن کے تعلق جیسے ہو کر رہ گئے ہیں۔ بس ایک سادہ سا بیاں اور اس کے بعد ایک طویل خاموشی۔
کراچی کے سیاسی ڈرامے سے ایک سبق اس کے انجینئروں کو ضرور ملا ہے کہ سیاسی حل نکالنا منٹوں یا دنوں کا نہیں بلکہ وقت اور وسائل طلب ہوتا ہے۔ ابھی لوگوں کے ذہنوں سے فاروق ستار اور مصطفی کمال کی اچانک مشترکہ پریس کانفرنس کے حوالے سے کئی سوالوں کے جواب تلاش ہی کیے جا رہے تھے کہ تمام صورت حال نے نیا رخ اختیار کر لیا۔ پہلے تو اس بات پر قیاس آرائی کی جارہی ہے کہ اس مشترکہ اتحاد کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ فاروق ستار نے اپنی پریس کانفرنس میں سیاسی قبضے اور اس کے نتیجے میں بٹنے والے مہاجر ووٹ کی بات کی، جس کا تعلق متحدہ کے درجنوں کارکنان کی پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت سے ہے۔
اگر دونوں جماعتوں کی اس بات کو تسلیم کر لیا جائے کہ ان پر ایسا کرنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کا دباؤ تھا یا ایسا سب کچھ دباؤ کا نتیجہ نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کی نیک خواہشات کا ثمرہ تھا تو اور اسٹیبلشمنٹ کی خواہش تھی کہ بجائے اس کے کہ ووٹ بینک تقسیم ہو، ووٹ کی طاقت کو یک جاکرکے کراچی کی سیٹوں کو اچھے مارجن سے جیتا جائے تو بات اور بھی مضحکہ خیز ہو جائے گی۔ اگر محض یہی خواہش تھی کہ آپس میں انضمام سے کراچی کی سیٹوں کو جیتا جائے تو یہ تو پہلے بھی ایک ہی تھے۔ جب یہ سارے ایک ہی پلیٹ فارم پر تھے تو ان کی توڑ پھوڑ کی ضرورت کیوں پیش آئی اور جب یہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں تو ان کو جوڑنے کی ضرورت کیوں پڑ رہی ہے۔
جہاں تک آئی ایس پی آر کی جانب سے یہ اعلان سامنے آنا کہ افواج پاکستان کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں، از خود ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے کیوں کہ افواج پاکستان نے سول حکمرانوں سے کہیں زیادہ عرصہ سیاست کی ہے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے عوام افواج پاکستان کا بے حد احترام کرتے ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ وہ ان کو اپنے ووٹ بھی دیں اور عوامی نمائندہ بھی تصور کریں۔ احترام کا مطلب اگر افواج پاکستان عوام کی رائے سمجھتی ہے تو اس کو ایک بہت بڑی بھول سمجھنا چاہیے اور اس بات کو جان لینا چاہیے کہ عوام جب بھی اپنی رائے کا اظہارکرتے ہیں تو وہ کسی بھی صورت میں کسی وردی والے کے حق میں نہیں کرتے اور اگر ماضی میں کوئی وردی والا منتخب ہونے میں کامیاب ہو ا بھی ہے تو وہ بھی کسی عوامی پارٹی کے ٹکٹ پر کامیاب ہو کر ایوانوں کی زینت بناہے۔
یہ بات جتنی جلد سمجھ میں آجائے گی اتنی ہی تیز رفتاری سے پاکستان کی بگڑتی ہوئی سیاسی صورت قابو میں آجائے گی ورنہ تو خواب دیکھنے والے نہ جانے کب سے کیا کیا خواب دیکھ رہے ہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ جب خواب غفلت سے بیدار ہوں تو ہاتھ میں چند چھیچھڑے رہ جائیں اور پورے کا پورا سالم بکرا دنیا کی دوسرے طاقتیں ہڑپ کر چکی ہوں۔