پاکستان میں مذہبی جنونیت

668

 (حصہ دوم)
پاکستان کی ازخود ٹھیکیدار ایجنسیاں کافی عرصے سے ایک ایسی تیسری قوت کی تلاش میں ہیں جو موجودہ سیاسی قوتوں کا متبادل بن سکے۔ چاہے کچھ بھی کرلیا جائے مگر یہ حقیقت ہے کہ پنجاب سے نواز شریف، سندھ سے زرداری اور خیبر پختون خوا اور بلوچستان کی پشتون بیلٹ سے مولانا فضل الرحمن کا خاتمہ نہیں کیا جاسکا ہے۔ اسی طرح ایم کیو ایم صرف وہی ہے جس پر الطاف حسین کا ہاتھ ہے، باقی کچھ بھی کرلیں ان سب کی حیثیت کاغذی ہی ہے۔ ان سب کے بارے میں جتنے بھی اسکینڈل آجائیں مگر ان کے ووٹ بینک کو ابھی تک نہیں توڑا جاسکا ہے۔ سورج کی شہادت آجائے کہ رات بیت گئی اور دن نکل آیا ہے مگر یہ قائدین کہہ دیں کہ نہیں ابھی دن نہیں نکلا ہے تو ان کے ماننے والے سورج کی شہادت کو جھٹلادیں گے۔ اس کے توڑ کے لیے بہت کچھ کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ کوشش کرکے انہیں محدود میدان تک ہی رکھا گیا ہے مگر ان سب لوگوں کا کوئی مطلوب حل اب تک ممکن نہیں ہوسکا ہے۔ تحریک انصاف کو ان سب کے متبادل کے طور پر سامنے لایا گیا مگر یہ تریاق کام نہیں کرسکا اور مکمل طور پر فلاپ ڈراما ثابت ہوا۔
ان سب کا ایک ہی علاج ہے اور وہ امرت دھارا ہے مذہب۔ مذہب ہی کی بدولت ہر بت کو گرایا جاسکتا ہے۔ اس وقت تحریک لبیک پاکستان کا جو نعرہ ہے وہ ایسے کسی بھی شخص کو گرمانے کے لیے کافی ہے جس کے دل میں رائی برابر بھی ایمان موجود ہے۔ اب ان دونوں پارٹیوں کے اجزائے ترکیبی کو دیکھتے ہیں۔
تحریک لبیک پاکستان خالصتاً بریلوی مکتب فکر کی نمائندہ جماعت ہے۔ بریلوی مسلک پاکستان کا اکثریتی مسلک ہے مگر 1977 کے بعد سے عضو معطل ہے۔ افغانستان کی جنگ میں ہراول دستہ جماعت اسلامی کے کارکنان تھے مگر جلد ہی اس کے منتظمین کو اندازہ ہوگیا ہے کہ جماعت اسلامی کے کارکنان پڑھے لکھے بھی ہیں اور معاملات سمجھ کر سوال و جواب بھی کرتے ہیں اس لیے افغان بارڈر کے دونوں جانب جماعت اسلامی اور گلبدین حکمت یار کی حزب اسلامی کو محدود کردیا گیا۔ باقاعدہ طور پر بھرپورغیر ملکی فنڈنگ کے ذریعے افغان بارڈر کے ساتھ ساتھ مدارس کا جال پھیلایا گیا اور انہیں مولانا فضل الرحمن کی سربراہی میں دے دیا گیا۔ جہاں جہاں ان مدارس کا اثر تھا وہاں پر مولانا فضل الرحمن کا توتی بولنے لگا اور وہ بیٹھے بٹھائے ایک زبردست حلقہ اثر کے مالک بن گئے۔ چوں کہ یہ تمام مدارس دیوبندی مسلک سے تعلق رکھتے تھے اس لیے فضل الرحمن کی صورت میں دیوبندی مکتب فکر پاکستان میں اقتدار میں تھا۔ 70 کے انتخابات میں چابی کے انتخابی نشان کے مزے لینے والے کہیں سائیڈ لائن پر بیٹھے کف افسوس ملتے رہے۔ اب تحریک لبیک پاکستان کی صورت میں اس بریلوی مکتب فکر کو نیا اچھال ملا ہے اس لیے کیک میں سے حصہ لینے کے لیے سارے ہی پرجوش ہیں۔
یہ سیٹ اپ ہر لحاظ سے کارآمد ہے۔ نواز شریف کی ساری کارکردگی، ساری مقبولیت لبیک یارسول اللہ کے نعرے میں گم ہوگئی ہے۔ ہر مسجد کا منبر اب اس نئی سیاسی پارٹی کا پروموٹر بن چکا ہے۔ اب ہر جگہ ایک ہی گونج ہے اور وہ ہے لبیک کی۔
آخر وہ کون لوگ ہیں جنہوں نے ختم نبوت کا حلف ختم کرنے کی حماقت کی اور وہ کون لوگ ہیں جو اس پر ابھی تک اصرار کررہے ہیں، اس کا راز تو جلد کھل ہی جائے گا مگر اس سے فائدہ اٹھانے والے ضرور سامنے ہیں۔ مسلکی بنیادوں پر استوار ہونے والی یہ سیاسی پارٹی ایک بپھرتے ہوئے سیلاب کی صورت اختیار کرتی جارہی ہے جو اپنے سامنے والی ہر رکاوٹ کو بہا کر لے جائے گی۔ اب بیعت لی جارہی ہے، جان دینے کی قسمیں لی جارہی ہیں، اس سب کے سامنے کون ٹک سکے گا بھلا۔
تحریک لبیک تو پنجاب اور سندھ کے ان میدانی علاقوں میں کارگر ہے جہاں پر بریلوی مسلک کے لوگ بستے ہیں جو کم پڑھے لکھے یا بالکل ہی پڑھے لکھے نہیں ہیں اور نبی ؐ کی محبت میں سرشار ہیں۔ مگر یہ نسخہ ان علاقوں کے لیے کارگر نہیں ہے جہاں پر دیوبندی مسلک کا اثر ہے یعنی مولانا فضل الرحمن کا علاقہ۔ اس کے لیے مولانا سمیع الحق کو دوبارہ سے زندہ کرنے کی کوششوں کے ساتھ ملی مسلم لیگ کو اتارا گیا ہے۔ ملی مسلم لیگ ان ہی علاقوں میں اپنا اثر رکھتی ہے جہاں پر اہل حدیث کے ساتھ ساتھ نسبتاً زیادہ انتہا پسند دیوبندی مکتبہ فکر کے لوگ ہیں۔ اس کے علاوہ طالبان کے جہادی فیکٹر کا بھی جماعت الدعوۃ ہی مقابلہ کرسکتی ہے۔ اور یہ علاقہ ہے افغان سرحد کے ساتھ ساتھ پشتون بیلٹ۔
ایک بات پر ذرا غور کیجیے کہ دونوں پارٹیوں کے پاس مالی معاونت کی کوئی کمی نہیں ہے۔ اسلام آباد کے دھرنے ہی کو لے لیجیے۔ آنکھ بند کرکے یہ کروڑوں کے اخراجات جاری ہیں۔ اب تو خادم حسین رضوی نے خود ہی اعتراف کرلیا ہے کہ اللہ کے نیک بندے روز آکر انہیں بھاری رقوم دے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ غیر ممالک سے بھی انہیں چندے کی رقم ملنا شروع ہوگئی ہے۔ اسی طرح ذرا جماعت الدعوۃ کا بجٹ تو دیکھیں، حیران رہ جائیں گے۔ ہر پروجیکٹ جو منظور ہوجائے تو اس کے لیے روپے پیسے کی ریل پیل ہوجاتی ہے۔ تاہم اگر کوئی نیا پروجیکٹ شروع کرنا ہو تو جب تک اس کی منظوری نہ آجائے، اس کے لیے دھیلا بھی دستیاب نہیں ہوتا ہے۔
دونوں پارٹیوں کے اجزائے ترکیبی پر غور کریں تو ایجنسیوں سے ان کے روابط کوئی ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ غیر ممالک سے بھی ان کے روابط کوئی راز نہیں ہیں۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ڈور کہیں اور سے ہلائی جارہی ہے۔ 2017 کے ضمنی انتخابات سب کے سامنے ہیں۔ اگر 2018 کے انتخابات ہوئے تو اس کے نتائج انتہائی حد تک حیران کن ہوں گے۔ یہ نتائج اس لیے بھی حیران کن ہوں گے سیاں بھئے کوتوال تو ڈر کاہے کا۔
اس سارے معاملے کو جاننے کے بعد اہم ترین سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس وقت پاکستان میں مذہبی جنونیت کے فروغ سے کیا حاصل ہوگا۔ اس سوال کے پہلے حصے کا جواب تو ہم جان ہی چکے ہیں کہ اس سے موجودہ سیاسی پارٹیوں سے نجات مطلوب ہے۔ مگر معاملات اس سے بھی کہیں آگے کے ہیں۔ اس پر گفتگو آئندہ کالم میں ان شاء اللہ تعالیٰ۔
اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔