تنویر اﷲ خان
ہم جس طرح مغرب سے جمہوریت کی کتاب کا صرف سرورق ہی نقل کرپائے ہیں‘ اُسی طرح اندرونی اسباق کے صرف عنوانات پڑھ کر جمہوریت کے فلاسفر بن گئے ہیں۔
انتخاب، ووٹ، پارلیمنٹ، حزبِ اقتدار، حزبِ اختلاف، احتجاج کی تجدید آج کی دُنیا میں جمہوریت کے نام سے ہوئی ہے۔
ان میں احتجاج بھی جمہوری نظام کا ایک ٹول ہے لہٰذا ہم نے جمہوریت کے ساتھ اسے بھی نقل کرلیا ہے‘ احتجاج کا طریقہ کیا ہوگا‘ اُس کی حد کیا ہوگی‘ اس کی اخلاقیات کیا ہوںگی‘ اس سے ہمیں کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
دھرنا، مظاہرہ، ریلی، جلسہ، جلوس اس لیے کیے جاتے ہیں کہ اس ذریعے سے کوئی سیاسی جماعت یا لوگوں کی ایک بڑی تعداد یا چند لوگ کسی مسئلے کی طرف حکومت، عوام کو متوجہ کرنا چاہتے ہیں تاکہ اسے حل کیا جائے۔
مغرب میں اگر احتجاج کو عوام کا جمہوری حق کہا جاتا ہے تو اس حق کی حد یہ ہے کہ کسی اورکا حق نہ مارا جائے، کسی ایمبولینس کا راستہ نہ رُکے، کسی مریض کے لیے اسپتال کا راستہ بند نہ ہو، تعلیمی اداروں کے راستے نہ مسددود ہوں، لوگ اپنے کام‘ کاروبار کو جانے سے محروم نہ ہوں… لیکن کیوں کہ ہم نے احتجاج کے حق کو بھی صرف نقل کیا ہے لہٰذا ہماری عقل اس معاملے میں بھی خبط کا شکار ہے۔
ہمارا معاملہ یہ ہے کہ کسی سیاسی و مذہبی جماعت کو اپنے کارکنوں کو فعال کرنا ہوتا ہے تو وہ تحریک کا اعلان کردیتے ہیں پھر مارچ، دھرنوں، جلسے اور جلوسوں کی سیریز شروع ہوجاتی ہے… چند لوگ لاکھوں کا راستہ بند کردیتے ہیں، کوئی نئی جماعت بنتی ہے تو بھی اپنے وجود کے اظہار کے لیے ان ہی طریقوں کو اختیار کرتی ہے۔ کسی مافیا کو بھتے کی وصولی کا کام شروع کرنا ہوتا ہے تو وہ بھی جھنڈا بنا کر‘ ترانہ گا کراور اپنے سر پر حب الوطنی اور مذہبی تقدس کا تاج سجا کر سڑکوں پر نکل پڑتی ہے۔ کہنے کو یہ جمہوری نظام میں شہریوں کا جمہوری حق ہے لیکن یہ حق کیسا حق خور ہے کہ جو سب کے حق کو کھا جاتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں احتجاجی مظاہرے نہیں ہوا کرتے تھے کچھ جلسوں کا ذکر ضرور ملتا ہے مثلاً پہلی دعوت کے لیے پہاڑ پر کھڑے ہوکر خطاب کرنا اور آخری خطبہ لیکن ایسا نہیں کہ اس ضمن میں کوئی ہدایت موجود نہ ہو آپؐ نے گزرگاہوں پر بیٹھنے سے منع فرمایا کسی نے اگر اجازت مانگی تو آپؐ نے مشروط اجازت دی کہ چلنے والوں کا راستہ نہ روکو، لوگوں کے سلام کا جواب دو، اپنی نگاہوں کو نیچا رکھو، راستے سے کانٹے کو ہٹادینا صدقہ قرار دیا لہٰذا نہ مغربی جمہوریت اور نہ ہی اسلام اس کی اجازت دیتا ہے کہ راستوں کو اس طرح بند کیا جائے کہ عوام کے لیے تکلیف کا سبب ہو۔
ہمارے عوام کو جمہوریت کا جیسا اور جتنا سبق پڑھایا گیا ہے وہ اُس کے مطابق عمل کررہے ہیں۔ لیکن ہمارے حکمران سب کچھ جانتے بوجھتے جمہوریت کے تماشائی ہیں۔ دھرنا یا احتجاج اگر مسلم لیگ کی حکومت میں ہو تو وہ اس خوف سے کچھ نہیں کرتے کہ پیپلز پارٹی والے جمہوریت کا جھنڈا لے کر چڑھ دوڑیں گے اور اگر دھرنا یا احتجاج پیپلز پارٹی کی حکومت میں ہو رہا ہو تو وہ سب کچھ جاننے کے بعد بھی کارروائی اس لیے نہیں کریں گے کہ مسلم لیگ اس پر سیاست کرے گی۔ یعنی حکومتوں کو عوامی مفاد کا خیال نہیں ہوتا بلکہ اپنے ناجائز سیاسی مفادات عزیز ہوتے ہیں۔ ان جماعتوں میں کوئی بھی حقیقی لیڈر نہیں ہے جو عوامی مفادات کو سامنے رکھ کر ہمت سے فیصلے اور اقدامات کرے۔
اسلام آباد میں تو یہ سلسلہ گزشتہ چند برسوں سے شروع ہوا ہے لیکن کراچی یہ مشکل گزشتہ کئی دہائیوں سے جھیل رہا ہے۔
کراچی کو پاکستان کا تجارتی حب، عروس البلاد، صنعتی شہر اور تجارتی مرکز کہا جاتا ہے‘ یہ سارے خطابات سُننے میں اچھے لگتے ہیں ایک عام پاکستانی اور کراچی کا رہنے والا ان خطابات کو سُن کر خوش بھی ہوتا ہے لیکن یہ ناموری کراچی کے لیے اذیت کا سبب ہے، کوئی نئی جماعت بنتی ہے یا کسی جماعت میں سے ایک اور جماعت برآمد ہوتی ہے یا کسی جرائم پیشہ جتھے کو سیاسی بہروپ دیا جاتا ہے تو یہ سارے گروہ ملک کے دفاع یا اسلام کی سربلندی کا جھنڈا لے کر کراچی کی سڑکوں پر نکل آتے ہیں‘ کوئی انھیں روکنے والا نہیں ہوتا، حکمران اپنے مفادات کی خاطر تماشائی بنے رہتے ہیں۔ حزب اختلاف حکومت کو نااہل قرار دینے کے کام میں لگ جاتی ہے اور عوام راستے بند ہونے کی وجہ سے گلی گلی کی خاک چھانتے پھرتے ہیں۔
پاکستان جس کی 98 فیصد آبادی کا مذہب اسلام ہے‘ اُسے کس بھی معاملے میں غیر منظم رہنے کی اجازت کس طرح دی جاسکتی ہے۔ جس مذہب میں ذاتی، اجتماعی، حکومتی، تجارتی، سفارتی، ملکیتی، وراثتی، سفری‘ حضری، خطابی سماعتی، خلوتی‘ جلوتی اور جانوروں کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے تک کی ہدایات دی گئی ہیں، جس مذہب کے نبیؐ سے جانور بھی اپنے مسائل بیان کرتے ہوں‘ اس مذہب میں یہ کیسے ممکن ہے کہ اعتراض، احتجاج، جلسے، جلوس، دھرنے کی ہدایات نہ دی گئی ہوں؟
ضرورت اس بات کی ہے کہ حکمران اپنے مفادات سے بالاتر ہوکر اور علما اپنے مسلکی دفاع سے بالاتر ہوکر مفاد عامہ کے مفاد کے لیے فیصلہ کریں، دھرنوں، ریلیوں، جلسوں اور جلوسوں کے لیے کوئی اصول و ضابطہ طے کریں، وہاں کی جانے والی تقریروں کی کوئی حد متعین کریں، کوئی سیاسی جلوس ہو یا کوئی مذہبی جلوس ہو اُسے مخصوص راستوں کا پابند کریں۔
جو نظام اور کام اکثریت کے لیے خیر کا سبب نہ ہو اور جو نظام اور کام اکثریت کے مفادات کا تحفظ نہ کرسکے اُس پر کوئی بھی لیبل لگا دیں زیادہ دن نہیں چل سکتا، اللہ نے یہ دنیا بسانے، چلانے، سنوارنے کے لیے بنائی ہے وہ اپنی بنائی ہوئی دُنیا کو اپنا ہی نام لے کر بگاڑنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔