این ٹی ایس پرچہ آوٹ کی تحقیقات سے قبل ہی داخلہ امتحان منسوخی کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا

344

کراچی (رپورٹ: قاضی عمران احمد) نیشنل ٹیسٹنگ سروس (این ٹی ایس) کے تحت کرائے جانے والے داخلہ امتحان کا پرچہ آؤٹ ہونے کی شکایات پر داخلہ امتحان منسوخ کرنے میں حکومت سندھ کی جلد بازی،تحقیقاتی رپورٹ 20نومبر کو جاری کی گئی جبکہ سندھ حکومت نے 11نومبر کو ہی داخلہ امتحانات کی منسوخی کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ،داخلہ منسوخی سے قبل این ٹی ایس کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے مطابق نتائج کی جانچ پڑتال بھی مکمل
نہیں کی گئی، 25 فیصد طلبہ و طالبات نے ’’آؤٹ آف سلیبس سوالات‘‘ حل کیے، این ٹی ایس داخلہ امتحان منسوخی کے لیے حکومتی اقلیتی رکن صوبائی اسمبلی کا بھائی بھی سرگرم، پرچہ آؤٹ ہونے کے ثبوت نہیں مل سکے۔ ذرائع کے مطابق 22 اکتوبر کو این ٹی ایس کے زیر انتظام یکساں سلیبس، پراسپکٹس اور ایک ہی دن ہونے والے سندھ بھر کی تمام سرکاری میڈیکل یونیورسٹیز اور کالجز کے داخلہ امتحان میں اندرون سندھ کے طلبہ طالبات کی جانب سے پرچہ آؤٹ ہونے کی شکایات اور مظاہروں کے بعد حکومت کی جانب سے 5رکنی کمیٹی قائم کی گئی تھی اور ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کو معاملہ حوالے کیا گیا تھاتاہم پرچہ آؤٹ ہونے کے حوالے سے کوئی ثبوت نہیں مل سکے اور تحقیقاتی کمیٹی نے ابتدائی رپورٹ میں کہا تھا کہ پرچہ آؤٹ ہونے کے ثبوت تو نہیں ملے مگر امتحانی پرچے میں 14 کے قریب سوالات آؤٹ آف سلیبس تھے جس کی وجہ سے طلبہ و طالبات کو دقت ہوئی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ این ٹی ایس اور ڈاؤ یونیورسٹی کے درمیان باہمی رضامندی کامعاہدہ موجود ہے کہ اگر امتحانی پرچے میں کچھ سوالات آؤٹ آف سلیبس آئیں، چھپائی میں کوئی غلطی ہو ہے یا سوال نمبر آگے پیچھے ہو جائیں تو اس صورت میں طلبہ سے اعتراضات طلب کیے جاتے ہیں پھر ان اعتراضات کی روشنی میں ادارہ اور این ٹی ایس کے ماہرین مشترکہ جائزہ لے کر معاملہ حل کریں گیجس کی ایک صورت یہ بھی ہوتی ہے کہ طلبہ کو اس کا فائدہ دیتے ہوئے مساوی نمبر تقسیم کر دیے جاتے ہیں مگر اس معاملے میں اس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایسا کچھ نہیں کیا گیا بلکہ براہ راست داخلہ امتحان منسوخ کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا۔ ذرائع نے بتایا کہ داخلہ امتحان کے بعد پہلے ایک عارضی نتیجہ تیار کیا جاتا ہے اعتراضات آنے کی صورت میں جائزہ لیا جاتا ہے پھر حتمی نتیجہ جاری کیا جاتا ہے لیکن اس داخلہ امتحان میں اس طریقہ کار کو بھی مکمل نہیں ہونے دیا گیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے داخلہ امتحان کی منسوخی کا نوٹیفکیشن 11 نومبر کو جاری کیا گیا تھا جس میں ڈاؤ یونیورسٹی کو 15 دن کے اندر اندر دوبارہ داخلہ امتحان منعقد کرنے کی ہدایت کی گئی تھی جبکہ حکومت سندھ کی جانب سے قائم کردہ 5 رکنی کمیٹی نے حتمی رپورٹ 20 نومبر کو پیش کی تھی جس سے حکومت سندھ کی جلد بازی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ذرائع کے مطابق پرچہ آؤٹ ہونے کے ثبوت نہ ملے تو سوالات کے آؤٹ آف سلیبس ہونے کا جواز بنایا گیا اس ضمن میں ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ این ٹی ایس کے ذریعے ہونے والے پولیس سمیت سندھ کے دیگر سرکاری اداروں میں ملازمت کے حصول کے لیے امتحانات پر ارکان صوبائی اور قومی اسمبلی کو تحفظات ہیں کیوں کہ وہ من پسند افراد کو ملازمت نہیں دلا سکتے اور نہ ہی ان اداروں میں ملازمتوں کی فراہمی کے ذریعے ’’الیکشن فنڈ‘‘ جمع کر سکتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق کچھ عرصہ قبل کچھ ارکان قومی و صوبائی اسمبلی نے پیپلز پارٹی کی ایک اعلیٰ شخصیت سے ملاقات میں بھی ان تحفظات کا اظہار کیا تھا جس کے بعد 22 اکتوبر کو ہونے والے میڈیکل یونیورسٹیز اور کالجز کے داخلہ امتحان کو متنازع بنا دیا گیا اور حکومت سندھ کی جانب سے کسی تحقیق اور این ٹی ایس سے وضاحت طلب کیے بغیر جلد بازی میں داخلہ امتحان کی منسوخی کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ این ٹی ایس کو متنازع بنانے کا مقصد یہ ہے کہ اب کم ازکم سندھ میں پولیس سمیت دیگر سرکاری اداروں کو این ٹی ایس کے امتحانات سے مستثنا قرار دے کر ملازمتوں کی بندر بانٹ کے ذریعے آئندہ انتخابات میں فائدہ اٹھایا جا سکے۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ سندھ اسمبلی میں حکومتی جماعت کے ایک اقلیتی رکن کے بھائی جو ریٹائرڈ اسکول ٹیچر ہیں این ٹی ایس کے خلاف تحریک میں سرگرم ہیں اس کی ایک وجہ ذرائع یہ بھی بتاتے ہیں کہ انہوں نے مٹھی میں ایک کوچنگ سینٹر کھول رکھا ہے اور اس سینٹر سے داخلہ امتحان میں حصہ لینے والے ان کی برادری کے تمام طلبہ اس امتحان میں ناکام ہو گئے تھے جس پر انہوں نے اندرون سندھ این ٹی ایس کے خلاف تحریک کا آغاز کیا۔ ذرائع کے مطابق پہلے تو اندرون سندھ کے ان طلبہ نے پرچہ آؤٹ ہونے کا واویلا مچایا اور مظاہرے کیے بعد ازاں یکم نومبر کو تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے کہا گیا کہ سوالات آؤٹ آف سلیبس تھے، جس کی بنیاد پر کمیٹی نے نوٹیفکیشن کے مندرجات کے مطابق اپنی رپورٹ تیار کر کے پیش کردی جبکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ پہلے تحقیقات کی جاتیں، رپورٹ پیش کی جاتی اور پھر نوٹیفکیشن جاری کیا جاتا۔ اس ضمن میں جب ’’جسارت‘‘ نے نیشنل ٹیسٹنگ سروس (این ٹی ایس) کے نگراں چیف ایگزیکٹیو آفیسر بریگیڈیئر (ر) طیب سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ابھی کچھ نہیں جا سکتا کیوں کہ معاملہ عدالت میں ہے تاہم نے جو تحقیقات کرائی اور ایف آئی اے کی رپورٹ کے مطابق بھی پرچہ آؤٹ ہونے کے کوئی ثبوت نہیں ملے ہیں، امتحان کے جو بھی تمام مراحل ہوتے ہیں ان میں ہر جگہ یونیورسٹیز کا ایک نمائندہ موجود رہا ہے جن کی موجودگی میں پرچہ کھلا، تقسیم ہوا پھر امتحان کے بعد ان کی نگرانی اور دستخطوں کے ساتھ سیل ہوا اور پھر جہاں ان کی چیکنگ کی جانی تھی ان ہی کی نگرانی میں کھلا، ہر کام شفافیت کے ساتھ ہوا ہے۔ بریگیڈیئر (ر) طیب کا مزید کہنا تھا کہ این ٹی ایس 15 سال سے امتحانات لے رہا ہے، حساس اداروں سمیت پولیس، ایف آئی اے، نیب اور عدالتوں تک میں ملازمتوں کے لیے امتحان این ٹی ایس کے ذریعے ہی لیے جاتے ہیں، اس کی ایک ساکھ ہے جس کا ہر طرح سے خیال رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ علاوہ ازیں سندھ ہائیکورٹ میں میڈیکل یونیورسٹیز کے داخلے کے لیے این ٹی ایس کا پرچہ آؤٹ ہونے کے کیس پر فریقین کے دلائل گزشتہ روز مکمل ہوگئے جس پر عدالت نے اپنا فیصلہ محفوظ کرلیا۔ عدالت نے این ٹی ایس کے نتائج اور پرچہ دوبارہ لینے کے معاملے پر حکم امتناع کو برقرار رکھا ہے۔ جمعرات کو جسٹس منیب اختر کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سندھ شبیر شاہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت کو قانون کے مطابق صحت اور تعلیم کے معاملات میں مداخلت کا مکمل اختیار ہے، سوشل میڈیا پر این ٹی ایس کا پرچہ آؤٹ ہونے کی شکایت پر وزیر اعلیٰ نے فوری کارروائی کا حکم دیا، وزیر اعلیٰ کی جانب سے قائم انکوائری کمیٹی کی رپورٹ بھی ریکارڈ پر موجود ہے۔ جسٹس منیب اختر نے پوچھا کہ کمیٹی نے کیا فائنڈنگز دیں وہ کسی کو معلوم نہیں، قانون این ٹی ایس میں مداخلت کا صوبائی حکومت کو کیا اختیار دیتا ہے اس کو بعد میں دیکھیں گے، این ٹی ایس کے حالیہ امتحانات کے بارے میں عدالت کو مطمئن کریں۔ دوسری جانب ایف آئی اے نے بھی تحقیقاتی رپورٹ پیش کردی۔ رپورٹ کے مطابق این ٹی ایس ٹیسٹ کے دوران کسی ادارے کی جانب سے غفلت سامنے نہیں آئی جبکہ پرچہ آؤٹ ہونے کے شواہد بھی نہیں ملے۔ عدالت نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ آئندہ سماعت تک محفوظ کرلیا۔