اکبر الٰہ آبادی

1337

حسن و عشق کی باتوں کو بھی پرانی روش سے ہٹ کر بیان کیا جا سکتا ہے اور گلے شکوے کی باتوں کو بھی ایک نیا رنگ دیاجا سکتا ہے۔ ذیل میں ایک شعر مثال کی طور پر لکھنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں جس سے اس بات کا اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ دل پر لگنے والی محبت بھری چوٹ اور ذرا ذرا سی باتوں پر فتنہ مچاکر کسی کی دل آزاری کرنا کسی حساس دل پر کیا قیامت ڈھاتا ہوگا جبکہ کسی کی ایسی ہی بڑی بڑی باتوں سے صرف نظر سے کام لیا جاناادائے حسن گردانہ جاتاہوگا۔ فرماتے ہیں:
ہم آ ہ بھی بھرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
یہی وہ طنزیہ انداز تھا جسکو اکبر نے اپنا شعار بنایا اور اردو ادب میں وہ مقام حاصل کیا جو ان ہی کاخاصّہ ہے۔ اسی خوبی کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹر مشاہد رضوی لکھتے ہیں’’چنانچہ انھوں نے طنزیہ شاعری اور ظرافت کا سہارا لے کر ہندوستانی مسلمانوں کو اپنی تہذیب، رہن سہن، نظریات اور تمدن کو اپنانے اور احساس کمتری سے نکالنے کی کوشش کی۔ شاعری کا یہ وہ انداز ہے جو صحیح معنوں میں ان کی شہرت کا سبب بنا اور یہی اس وقت کا تقاضہ تھا۔ اگر اکبر، مولانا الطاف حسین حالی، شبلی نعمانی اور علامہ اقبال جیسے لوگ ہندوستان میں پیدا نہیں ہوتے تو شاید ہندوستان میں مسلمانوں کا وجود ہی ختم ہو جاتا‘‘۔
جب بھی کوئی ایسی تحریک شروع ہوتی ہے جو عام روش سے ہٹ کر ہو، یہ بات دیکھی گئی ہے کہ رد عمل کے طور پر اس کی مخالفت میں بڑے بڑے پہاڑ کھڑے کرنے کی کوشش کی جاتی ہے یا کسی کی ایسی بات جس کو فوری طور پر ذہن قبول کرنے سے انکار کررہا ہو تو کہنے والے کو زمانے بھر کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سرسید نے جب مسلمانوں میں یہ احساس دلانے کی کوشش کی کہ بنا تعلیم ترقی کرنا اور انگریزوں کی غلامی سے نجات حاصل کرنا ممکن نہیں تو عمومی طور پر مسلمانوں نے اس کو نہ صرف قبول کرنے سے انکار کردیا بلکہ اس ’’ردقبولیت‘‘ میں شدت کا پہلو بھی بدرجۂ اتم موجود تھا۔ اس دور کے وہ مسلمان جو مذہب کے ساتھ بہت شدید قربت رکھتے تھے ان کے مردوں نے تو انگریزی تعلیم کو اپنے لیے شجر ممنوعہ سمجھا ہی تھا، اپنی بچیوں کی لیے تو حرام ہی قرار دیدیا تھا۔ اس شدید رد عمل کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ لوگ جو اس زمانے میں بہت ایڈوانس تھے ان کے بچے بچیوں نے اس کو اپنا لیا۔ ایک تو وہ پہلے ہی ماڈرن ازم کا شکار تھے، تعلیم نے ان میںمعاشرے سے اور بھی زیادہ بغاوت پیدا کردی اور انھوں نے تعلیم کے ساتھ ساتھ تہذیب کا بھی جنازہ نکال کر رکھ دیا۔ انگریزی تعلیم کے ساتھ تہذیب سے دوری کسی بھی طور پر مسلمانوں کی لیے نیک شگون نہیں تھا۔ اس بات کو بعض شعرا نے اصلاحی انداز میں سمجھانے کی کوشش کی اور بعض نے محض ہنسی مذاق میں اڑا دیا۔ الطاف حسین حالی، علامہ اقبال اور اکبر الٰہ آبادی ان مصلحین میں شامل تھے جوسنجیدہ، مزاحیہ اور طنزیہ انداز میں قوم کی اصلاح کرتے نظر آئے اور ان کو احساس دلاتے رہے کہ جدید تعلم حاصل کرنا کوئی عیب و گناہ کی بات نہیں لیکن اپنی تہذیب اور و تمدن سے بغاوت کسی بھی طور درست نہیں۔ وہ اس بات کو بہت اچھی طرح سمجھتے تھے کہ مسلمان تعلیمی اداروں سے کٹ کر بھی نہیں رہ سکتے تھے اور وابستگی کی صورت میں نصاب تعلیم ایسا مرتب کیا گیا تھا کہ طالب علم اپنی دینی اور تہذیبی شناخت کھو سکتے ہیں بلکہ کھوتے چلے جا رہے ہیں۔ ایسے میں اکبر نے بتادیا کہ مغربی تعلیمی اداروں میں پڑھو لیکن دلوں میں اللہ کی یاد اور اسلامی اقدار کی محبت کو کم نہ ہونے دو، اسی بات کو سامنے رکھتے ہوئے اکبر الٰہ آبادی ایک جگہ فرماتے ہیں:
تم شوق سے کالج میں پھلو، پارک میں پھولو
جائز ہے غباروں میں اڑو، چرخ پہ جھولو
بس ایک سخن بندۂ عاجز کا رہے یاد
اللہ کو اور اپنی حقیقت کو نہ بھولو
معاشرہ دو انتہاؤں میں تقسیم ہو نے کانتیجہ یہ نکلا کہ پڑھ جانے والے بچے اپنے بڑوں کو بہت ہی چھوٹا تصور کرنے لگے۔ اس سوچ کا پیدا ہونا کسی بھی طور قابل قبول نہیں ہو سکتا تھا لہٰذا ضروری تھا کہ جن کچے ذہنوں میں اس قسم کی سوچوں نے جنم لینا شروع کر دیا ہے ان کے آگے بند باندھے جائیں اور اس سوچ کو بدلنے کی سعی و جہد کی جائے چنانچہ اکبر اپنے اسی مثالی طنزیہ انداز کا سہارا لیتے ہوئے فرماتے ہیں:
ہم ایسی سب کتابیں قابل ضبطی سمجھتے ہیں
کہ جن کو پڑھ کے بیٹے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں
اکبر کے اکثر اشعار پڑھ کر یہ گمان گزرتا ہے کہ وہ انگریزی اور انگریزی تعلیم کے مخالف تھے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ وہ خود انگریزی کے بڑے ماہر تھے۔ اگر ان کو انگریزی تعلیم سے نفرت ہوتی یا وہ سرے سے انگریزی زبان کے مخالف ہوتے تو از خود انگریزی زبان کیوں سیکھتے۔ بات صرف اتنی ہے کہ وہ انگریزی تہذیب کو اپنانے کے خلاف تھے۔ المیہ یہ ہورہا تھا کہ جو مسلمان بچے اور بچیاں انگریزی سیکھ رہے تھے یا انگریزی تعلیم حاصل کر رہے تھے وہ اپنی تہذیب کو فراموش کرکے وہی رنگ ڈھنگ اختیار کرتے جارہے تھے جو انگریزی تہذیب کا خاصّہ ہے جس کی وجہ سے نہ صرف اکبر الٰہ آبادی ، اس دور کے جید جید علما، مشائخ، ادیب اور شاعر انگریزی کی مخالفت پر کمر بستہ نظر آتے تھے۔ ان کے نزدیک انگریزی پڑھناجرم نہیں تھا، ڈر تھا تو یہی کہ لوگ انگریزی تہذیب کے اسیر ہوکرنہ رہ جائیں، اپنی روایات کوبھول جائیں اور اپنی حلیے اور وضع قطع ایسی نہ بنالیں کہ وہ کہیں سے کہیں تک بھی مسلمان نظر نہیں آئیں۔ ذیل میں درج اشعار اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں انگریزی زبان سیکھنے اور ایسی درس گاہوں میں تعلیم حاصل کرنے کی وجہ سے ایک عام مسلمان کی کیفیات میں کیسی کیسی تبدیلیاں آنے لگی تھیں جو کسی بھی طور پر ایک مسلم معاشرے میں گوارہ نہیں کی جاسکتیں تھیں۔
نیچریت چیست از دیں گم شدن
نے قمیص و کوٹ و پتلون و بٹن
قابلیت تو بہت بڑھ گئی ماشاء اللہ
مگر افسوس یہی ہے کہ مسلماں نہ رہے
عاشقوں کے بھی معین ہو گئے ہیں اب حقوق
عہد انگریزی ہے یہ اے جانِ جاں شاہی گئی
حرم والوں سے کیا نسبت بھلا ہم اہل ہوٹل کو
وہاں قرآن اترا ہے یہاں انگریز اترے ہیں
ہوئے اسقدر مہذب کبھی گھر کا رخ نہ دیکھا
کٹی عمر ہوٹلوں میں مرے ہسپتال جا کر
یہی بس اکبر کی التجا ہے جناب باری میں یہ دعا ہے
علوم و حکمت کا درس ان کو پروفیسر دیں، سمجھ خدا دے
یہ بات کتنی عجیب سے لگتی ہے کہ ایک ایسا شخص جو خود انگریز دور حکومت میں جج رہ چکا ہو وہ انگریزوں سے اتنا بعد رکھتا ہو کہ اپنی عام گفتگو میں بھی اس کا اظہار کئے بغیر نہ رہتا ہو۔ ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ کسی دعوت میں آپ کے سامنے ’’ڈبل روٹی‘‘ پیش کردی بالکل اس طرح جیسے فی زمانہ ’’برگر‘‘ کا بڑا رواج ہے۔ اس کو دیکھ کر مسکرانے لگے۔ میزبان نے وجہ پوچھی تو فرمایا’’یہ بھی کسی انگریز کے کولھوںں کی طرح لگتی ہے بس ذرازیادہ سک گئی ہے‘‘۔ انگریزوں سے نفرت اور ان کی تہذیب سے عداوت کی وجہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں تھی کہ انگریزی تہذیب میں سوائے ’’بے لباسی‘‘ اور مذہب سے بیزاری کے اور کچھ نہیں تھا اور اس دور کے جو بچے بچیاں دو لفظ انگریزی کے پڑھ لیتے تھے، وہ معاشرے کی ساری اقداروروایات کو فراموش کر بیٹھتے تھے۔ یہ تاثر ان کے ان شعار میں ملتا ہے۔
غزالی و رومی کی بھلا کون سنے گا
محفل میں چھڑا نغمہ اسپنسر و مَل ہے
ہم بھی تھیٹر میں ہنسیں گے جا کے خوب
خانقاہوں میں تو برسوں رو لیے
ہوجائیے طریقۂ مغرب پہ مطمئن
خاطر سے محو خطرۂ انجام کیجیے
الفاظِ کفر و فسق کو بس بھول جائیے
ہر ملت و طریق کا اکرام کیجیے
دل میں اب نورِ خدا کے دن گئے
ہڈیوں میں فاسفورس دیکھئے
اکبر کا دل دین اسلام سے مزین تھا۔ وہ اسلامی تعلیمات کا بہت ادراک رکھتے تھے۔ بے شک وہ انگیریزی تعلیم کو بحیثیت علم و آگہی کے مخالف نہیں تھے لیکن اسلامی تعلیمات کے خلاف ہر فعل و عمل کو رد کرتے تھے۔ چنانچہ ان کی شاعری میں یہ بات ہر ہر گام نظر آتی ہے۔ وہ فرماتے ہیں:
واعظ فقط غضب کا سزاوار نہیں میں
حصہ مرا گنجینہ رحمت میں بھی کچھ ہے
اسلام کو جو کہتے ہیں پھیلا بزور تیغ
یہ بھی کہیں گے پھیلی خدائی بزور موت
یہی فرماتے رہے تیغ سے پھیلا اسلام
یہ نہ ارشاد ہوا توپ سے کیا پھیلا ہے
آزاد سے دیں کا گرفتار اچھا
شرمندہ ہو دل میں وہ گنہگار اچھا
ہر چند کہ اور بھی ہے اک خصلتِ بد
واللہ کہ بے حیا سے مکّار اچھا
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ تعلیم جہالت کے پردے کو چاک کر دیتی ہے اور جو دل بھی دولت علم سے پر نور ہوجاتا ہے وہ نفرت، کدورت، بغض، حسد اور کینے سے پاک ہو جاتا ہے اور ایسا معاشرہ وجود میں آنے لگتا ہے جہاں امن و سکون کا ڈیرہ ہوتا ہے لیکن اکبر الہ آبادی انگریزوں کی تعلیمی پالیسی کے پس پردہ مقاصد سے بخوبی آگاہ تھے۔ اسی لیے اپنا کلام انھوں نے مسلمانوں کو ان مذموم مقاصد سے آگاہ کرنے کے لیے وسیلے کے طور پر استعمال کیا۔ مغربی پالیسی کے اثرات کو آپ نے شیخ کی زبانی یوں بیان کیا ہے:
شیخ مرحوم کا قول اب مجھے یاد آتا ہے
دل بدل جائیں گے تعلیم بدل جانے سے
اکبر دراصل وہاں تک دیکھ رہے تھے جہاں تک عام انسان کی سوچ کے پر بھی جلنے لگتے ہوں۔ وہ اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ اس تعلیم کے منفی اثرات بھی اسلامی معاشرے پر ضرور مرتب ہونگے اور وہ اس سے اس درجہ متاثر ہو سکتے ہیں کہ اپنی بہت ساری اقداروروایات ہی کو بھول جائیں۔ یہ بات غلط بھی نہیں تھی اور آج بھی ہم اس بات کے گواہ ہیں کہ ہماری مائیں اب وہ مائیں نہیں جو اپنے خون جگر سے اپنے لخت جگروں کی پرورش کیا کر تی تھیں اور اپنی محبت کی شیرینی و خلوص ان کی رگ و پے میں اتاردیاکر تی تھیں۔ وہ فرماتے ہیں:
طفل سے بو آئے کیا، ماں باپ کے اَطوار کی
دودھ تو ڈبے کا ہے، تعلیم ہے سرکار کی!
دراصل اکبر اپنے اشعار کے ذریعے، اس دور کی نئی نسل کو انگریزوں کی نئی تعلیمی پالیسی کے اثرات اور نتائج سے آگاہ کررہے ہیں وہ کہتے ہیں کہ سامراج کی اس نئی تعلیمی پالیسی سے اپنے ماں باپ، اپنی تہذیبی و تمدنی عروج، دینی غیرت اور ہمدردی سب کو بھول جانا اور فقط یہ خواہش دل میں پیدا ہونا کہ مجھے ڈاکٹر یا ماسٹر یا انجینئر بننا ہے اور بس اس جیسی اور باتیں مسلمان نوجوانوں کے ذہنوں میں رچ جاتی ہیں۔ ایسے خیالات کو اکبر قوم اور ملت کے لیے خطرناک قرار دیتے ہیں:
ماں باپ سے، شیخ سے، اللہ سے کیا ان کو کام
ڈاکٹر جنوا گئے، تعلیم دی سرکار نے!
اس وقت کی جدید تعلیم کا چرچے کو اگر سنجیدگی کے ساتھ لیاجائے تو اس کا مقصد انگریزوں کو اپنے لیے خدمت گار پیدا کرنے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں تھا۔ تعلیم بیشک تعلیم ہوتی ہے اور اس وقت کے لحاظ سے اس کی افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا تھا لیکن اس کی تحصیل کے بعد ایک ڈگری، ایک نوکری اور نوکری کی تکمیل کے بعد پنشن کے علاوہ اس میں دھرا کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اکبر الٰہ آبادی اس نظام تعلیم سے سخت مایوس و نالاں دکھائی دیتے تھے جس کا اظہار وہ ان الفاظ میں کرتے ہوئے نظر آتی ہیں:
تعلیم جو دی جاتی ہے ہمیں وہ کیا ہے فقط بازاری ہے
جو عقل سکھائی جاتی ہے وہ کیا ہے، فقط سرکاری ہے
پڑھ کے انگریزی میں دانا ہو گیا
’’کم‘‘ کا مطلب ہی کمانا ہو گیا
کیا کہوں احباب کیا کارِ نمایاں کر گئے
بی اے کیا، نوکر ہوئے، پنشن ملی اور مر گئے
(جاری ہے)