حج مبرور

213

نجمہ ثاقب
مہری کھپریل کی ڈھلوان چھت پہ پردھان منتری بنی کھڑی تھی۔ نیچے مسجد کی پتلی گلی نیم تاریک سرنگ کی طرح لمبائی کے رخ دروازے کی دہلیز پر منہ کھولے ہوئے تھی۔ دہلیز کے نیچے سے رواں نالی میں شرر شرر کرتا پانی کناروں سے نکل کر گلی کو بھی گیلا کیے دیتا تھا جس نے اوپری دیوار کے جھانکتے سائے کو قدرے خنک بنا دیا تھا۔
ظہر کا وقت تھا یا عصر کا… کچھ ٹھیک سے یاد نہیں البتہ اکا دکا نمازی حضرات سروں پر ٹوپیاں جمائے کندھوں پہ بڑے صافے سروں کے گرد لپیٹے تہبندوں کے لانگڑ اوپر اڑستے آگے پیچھے مسجد میں داخل ہونے لگے۔
تاج دین سفید پٹوں کو مٹیالے دھسے سے ڈھناپتا منظر پہ نمودار ہوا تو مہری کو دیکھ کے لمحہ بھر کے لیے رکا پھر ٹوٹی کمانی کی جگہ بندھے پیچواں دھاگے کو کان پیچھے اڑستے ہلکی آواز میں کنھکار کے بولا۔
’’ماہری! قدم دھیان سے جما کے کھڑی ہوئیو‘ جوان جا تکڑی کی طریوں چھتیں الانگتے ہاتھ پائوں نہ تڑوا بیٹھیو۔‘‘
مہری کے چہرے کی جھریوں میں مسکراہٹ کہیں سرسرائی ہوگی۔ بولی تو لہجے میں بالک ہٹ کی سی تریاہٹ تھی۔
’’ہمت اور طاقت جوان عمر کے ادھار سہی‘ تاج دینے‘ مگر کبھی کبھی دل کسی آس کا آنکڑا پکڑ لے تو بوڑھے کو بھی جوان بنا دیتا ہے۔
تاج دین کی سمجھ میں کچھ آیا یا نہیں‘ اس نے ظاہر نہیں کیا اور ’’لو مولوی جی نے تکبیر پڑھ لی اور میں بے وضو…‘‘ کہتے ہوئے مسجد کی چوکھٹ الانگ گیا۔
مہری کچھ ایسی پھونس بھی نہ تھی۔ ستر کے پیٹے میں ہوتے ہوئے بھی پچھلے دو سال تک گھر باہر کے سب کام چوکڑیاں بھرتے کرتی آئی تھی۔ موذی گنٹبھیا نے اسے تنگ نہ کیا ہوتا تو ابھی بھی پانچ سات گھروں کے مویشی خانوں کے گوبر لپیٹ‘ ناندوں کھرلیوں میں جوار اور باجرے کے سوکھے ٹانڈی سمیت چولہا گرم رکھنے کا سامان کیے رکھتی۔
مگر جب سے بہو بیٹے کا دم پورا ہوا تھا‘ مانو ہڈیوں میں پانی بیٹھ گیا تھا۔ اٹھتے بیٹھتے گھٹنے چرخ چوں چرخ چوں کرنے لگے۔
تاج دین کے جانے کے بعد دو چار منٹ تک گلی خالی رہی پھر سائیکل کے دونوں جانب بوریوں کے جھول لٹکائے گشتی دوسری جانب سے داخل ہوا تو مہری کے پوتے نے بالشت بھر بازو آگے بڑھا کے دادی کو پیچھے دھکیلا اور منڈیر سے نیچے کو جھکتے ہوئے بولا ’’بابا آگے گلی بند ہے‘ کیچڑ میں ٹائر پھنسوائو گے؟‘‘
بابا اوپری دیوار سے لکن میٹی کھیلتی پتلی پیلی دھوپ کے پارنو‘ دس سال کے لڑکے کو دیکھ کے ہنسا اور سائیکل مسالہ جھڑی بھر بھری اینٹوں سے ٹکا کر نالی کی موری میں پائوں پھنسا کے ماتھے کا پسینہ پونچھنے لگا۔
گلی بند ہے تو کیا ہوا ادھر کھڑا ہونے کو سایہ تو ہے۔ لڑکے کو سائیکل کے پیچھے دھرے صندوقچے سے ایکاایکی دلچسپی پیدا ہوئی۔
’’اس میں کیا رکھتے ہو بابا؟‘‘
بابے نے کھڑاک سے ڈھکن اٹھایا۔ لڑکے نے تجسس سے اندر جھانکا۔ نگینوں والے کیل کوکے‘ پلاسٹک کی صابن دانیاں‘جوئیں نکالنے کی باریک دندانوں والی کنگھیاں اور خوشبو دار تیل کی شیشیاں۔ بابے نے ایک ایک کرکے سامنے پڑی چیزیں گنوائیں۔
’’دادی… دادی حج پر کنگھی لے کے نہ جائو گی؟‘‘
مہری آواز سن کر پوتے کے قریب ہوئی۔ مسجد کے داہنی ہاتھ گلی میں کھلتے کھڑکی نما چھوٹے دروازے کی گھوڑی آپوں آپ گھومی اور کھچڑی بالوں اور جھریوں زدہ چہرے پہ چادر کی بکل لپیٹتی بی جی نے باہر جھانکا۔
اوپر نیچے ایک نظر ڈالنے کے بعد وہ پوری باہر نکل آئی اور صندوقچے کے قریب آکر کھڑی ہوگئی۔ ’’لے لو مہری‘ تمہارے کام کی چیزیں ہیں۔‘‘
اوپر سے جھانکتی مہری تھوڑی جھینپ گئی۔ ’’لو میرے کام کی کیا ہوئیں…؟ یہ کیل کوکے…؟ یا کالے فیروزی پتھروں والی چھاپیں میں لے کر کیا کروں گی؟‘‘
یاسر نے چھت پر سے کنکری اٹھائی اور نیچے پھینکی۔ وہ ٹن کرکے صندوق کے کھلے ڈھکن پہ لگی اور نیچے گر گئی۔ یاسر قل قل کرکے ہنسا اور ایک اور کنکری اٹھا کے دے ماری۔
ٹن تن کی آواز اسے اچھی لگی مگر مہری نے بازو پکڑے اسے دھکیل دیا اور نیچے سے بی جی نے بھی ڈپٹا۔
صندوق توڑے گا بدذات‘ٹن ٹناٹن کا شوق اس کھمبے پہ پورا کرلو۔ سرکاری کھمبا ہے تیڑھا بھی ہوا تو کوئی پوچھنے والا نہیں۔
کنگھی تو خیر مجھے چاہیے۔ مہری نے صندوقچی میں جھانکا… اور خوشبو والا تیل بھی… یاسر دوبارہ آگے نکل آیا۔
لو جی… بے جی بے ساختہ ہنسیں۔ تیری دادی حج پہ چلی ہے یا بردکھوے کو… پوتا خوشبو دار تیل پھلیل دے کے بھیج رہا ہے۔
مہری دوبارہ جھینپ گئی مگر اس جھینپ پنے میں عجیب سی اٹھلاہٹ تھی جو اس کی عمر سے تو میل نہ کھاتی تھی مگر اس کے چہرے کی سادگی اور برودت میں عجیب قسم کا تال میل پیدا کیے دیتی تھی۔
تو پھر کیا لوں تمہارے لیے؟ بی جی نے صندوقچے میں ہاتھ مارا۔
یہ کنگھی تو ضروری ہے اور یہ دنداسہ بھی لے لیتی ہوں۔ مسواک شریف تم ادھر سے لیتی آنا اور تسبیحاں چھلے تو سب کے لیے لانے ہی ہیں۔ یہ رومال بھی رکھ لو۔ کبھی ضرور ت پڑ جاتی ہے۔
بی جی نے دو تین چیزیں صندوقچی میں سے کھینچ لیں۔
جانا یاسر… مہری نے پوتے کو بھگایا۔ بھاگ کے جا میری سرمانچی کے غلاف میں روپے دھرے ہیں۔ ہوا کی طرح پکڑ لا۔
بس بس رہنے دو… بی جی نے دہری بکل کا بندھا کونا کھولا۔ یہ دو چیزیں تمہارے لیے لے لیں تو شاہ سے فقیر نہیں ہونے لگی۔
بے بھائی… تو اپنا حساب کر… پیسے پیسے یہ چخ چخ مجھ سے نہ ہوگی۔ جو بنتا ہے وہ لینا۔ زائد ایک ٹکا نہ دوں گی۔ تم بھی ذرا خیال کرنا۔ مائی حج پہ جارہی ہے اللہ کے گھر میں تمہارے لیے بھی دعا کرے گی۔
بسم اللہ… بسم اللہ… پھیری والے نے کنگھی سمیت دو چار چیزیں بی جی کے ہاتھ سے لے کر ناک‘ منہ اور آنکھوں سے لگائیں۔
اللہ سفرمبارک کرے۔ خرید کی قیمت دے دو۔ قسم اللہ پاک کی نفع کا ایک روپیہ نہ لوں گا۔
نمازی نکلنے لگے تو بی جی زن سے کھڑکی کی گھوڑی دبا کے اندر ہوگئی۔
مہری بھی یاسر کو لے کر منڈیر سے ہٹ گئی۔ چلتے چلے یاسر نے کنکر اٹھا کے نیچے پھینکا اور ٹن ٹن کی آواز سنے بغیر دادی کے بازو پیچھے گھسٹتا نیچے چلا گیا۔
…٭…
مہینہ بھر ادھرکی بات ہے۔ مہری بی جی کے گھر میں بیٹھی لحاف میں ڈورے ڈال رہی تھی۔ دالان کے سامنے دو رویہ قطاروں میں مختلف عمر کی لڑکیاں آمنے سامنے رحلوں پہ جزدان دھرے بیٹھی تھیں۔ اونچی ٹیک کے پیڑھے پہ براجمان بی جی کے ہاتھ میں بانس کی پتلی لمبی چھڑی تھی جس کی پہنچ ہل ہل کے سبق دہراتی کونے میں دبکی آخری لڑکی تک تھی۔ ادھر کسی سے غلطی سرزد ہوئی ادھر چھڑی کی کھٹ سے کمر پر بجی۔ دیگر لڑکیاں اوڑھنیوں میں منہ دے کے قل قل کرتیں۔ کسی کی آواز اتفاق سے اونچی نکل جاتی تو چھڑی کا رخ بدل جاتا۔ اسی ادل بدل میں زہرہ بی بی اندر داخل ہوئی۔ بی جی نے بسم اللہ کے چادر کھچڑی بالوں پہ کھینچی اور خیر مقدم کے لیے پیڑھی سے اٹھیں۔
لڑکیوں نے دھیان کو بٹتا پاتے ہی آپس میں کھسر پھسر کرنا شروع کردی۔
کرم دین کی بیوی ہے۔
کون کرم دین…؟
وہی جس نے گائوں کے باہر ماری بنائی ہے۔
جس کی چھت پہ سرخ اینٹوں کا جنگلا… اور سنہرے کنگروں کے دو منارے ہیں؟
ہاں…جیسے مسجد کے ہوتے ہیں۔
جس کا بڑا لڑکا پار سال دبئی سے ٹی وی لایا تھا۔
ساتھ والی نے یہ سن کر دوسے پہلو میں بیٹھی لڑکی کو ٹہوکا دیا اور بولی دیکھ دبئی والا بیٹا یاد ہے اسے۔ زہرہ بی بی کا دماغ بڑا اونچا ہے۔ اپنے لڑکے کے لیے وہ گائوں کے کسی بھی گھر کی طرف نظر اٹھا کے دیکھنے والی نہیں۔
تو میں نے یہ کب کہا ہے؟ نہیں تو نہ سہی۔ ہونہہ کرکے اس نے دوسری طرف منہ کرلیا۔
دونوں لڑکیاں معنی خیز نظروں سے اک دوجے کو دیکھ کے مسکرائیں۔
زہرہ بی بی کبوتری کی سی چال چلتی بی جی کے پاس آئی اور انگلی کی چٹکیوں سے کپڑے سمیٹتی نزاکت سے چار پائی پہ سمٹ گئی۔
مہری نے دور بیٹھے مہمان کا مقام اور مرتبہ جانچا اور لحاف چھوڑ کاڑھنی سے دودھ نکالنے چلی گئی۔ مٹی کی گول انگیٹھی سے دھواں سرمئی مرغولوں کی شکل میں نکل کے فضا میں بادل بنا رہا تھا۔ کاڑھنی کے بیرونی پیندے پہ مسلسل کڑھت نے آبنوسی موتیوں کی جھالر سے لٹکا دی تھی جن کی چمک کو کالک نے ماند کرنے کی بجائے مزید بڑھا دیا تھا۔
آوازیں دھوئیں کی دھند کھائی مہک کے بیچ راستہ بناتیں مہری کے کانوں سے ٹکرائی۔
مہری سے بہتر اور کون ہوگا بی جی نمازی ہے۔ پرہیزگاری ہے‘ سب سے بڑی بات یہ کہ حق دار ہے۔
مہری نے موٹے کانچ کا بالائی اٹے دودھ سے لبالب بھرا گلاس اس کے ہاتھ میں تھمایا تو بی جی بولیں۔
لے مہری تمہاری سنی گئی‘ میں اللہ کے گھر کوخوابوں میں دیکھتی رہی اور تم مجھ پر بازی لے گئیں۔ لے اب جی بھر کے طواف کرنا۔ بی جی ہاجرہ کی جا پہ دوڑی پھرنا اور جتنا مرضی ہو زم زم پینا۔
اس سے پہلے کہ مہری حیرت کا مجسمہ بنتی‘ زہرہ بی بی بولی میرا بڑا لڑکا اپنے باپ کی جگہ کسی کو حج بدل کروانا چاہتا ہے۔ زندگی میں خواہش تھی کہ باپ کو حج کرائے پر توفیق نہ ہوئی۔ اب توفیق ہوئی تو باپ نہ رہا۔ مجھ سے کہتا ہے کوئی بندہ بشر ڈھونڈو۔ پانچ وقت کا نمازی ہو‘ حلال حرام کا فرق کرتا اور اللہ پاک کے گھر کی زیارت کا شوق بھی ہو۔ میری نظر سیدھی تم پہ پڑی۔
اے اللہ کا نام لے کر تیاری پکڑ۔ ضروری کاغذ بنوا لے۔ باقی سب میرا لڑکا کرے گا۔ حج کی درخواست وہ خود دے گا۔
مہری کا تن بدن لکا ہو کے دھوئیں کی طرح فضا میں اڑنے لگا اور فضا میں پھیلی ہلکی باس میں رچ بس گیا۔ لڑکیاں بی جی کو غافل پا کی چڑیوں کے جھنڈ کی طرح چیں چیں کرنے لگیں۔ زہرہ بی بی نے دودھ کا گلاس چارپائی کے پائے سے ٹکایا اوار جس طرح سارے ماحول کو اپنے گرد لپیٹتی آئی تھی یونہی اسے پرت پرت اتارتے واپس لوٹ گئی۔
بی جی چھڑی کی نوک سے لڑکیوں کو ٹھونکتے ہوئے بولیں باقی تو سب ٹھیک ہے پر تو غارِ حرا پہ کیسے چڑھے گی؟ اللہ بخشے میاں جی گئے تھے۔چڑھ تو گئے مگر بڑے اوکھے ہو کر ایک تو چڑھائی پھر ایسے سیدھے رخ کہ جوان بدنوں میں پتہ پانی ہونے لگے۔ اب تو بلی تو ہے نہیں کہ سیدھی دیوار پر چڑھتی جائے۔ دونوں ٹانگوں پہ کھڑی ہونے والی مخلوق بیچ راہ پہنچ کے تھک جاتی ہے۔ صرف شوق اسے اوپر پہنچاتا ہے۔ جہاں نبیوں پہ فرشتے اترتے ہیں او ر ولیوں کے راز سے پردے اٹھتے ہیں۔
مہری یک بیک ستر سال سے پچیس سال کی لونڈیا میں تبدیل ہوگئی۔ ترپ کے پتے کی طرح چال بدلتے ہوئے کنھکتی آواز میں بولی چڑھ جایئوں گی بی جی۔ میرا مولا اک بار بلائی تو۔ میں تو چار ہاتھ پائوں پہ چوپایوں کی طرح سرکتی جائوں گی۔
پھر مہینوں کا کام دنوں میں ہوا۔ بی جی کا بھانچا مہری کو خود ضلع کے دفتر ل کر گیا۔
کالی ناگن کی سی لمبی سڑک پہ اس نے زنا زن موٹر کاریں بھاگتی دیکھیں اور انگلی دانتوں تلے دبا لی۔ اپنے بچپن میںجب اس نے پہلی مرتبہ خالی پہیہ گول گول گھومتے دیکھا تھا اس کے تیز گھمائو سے متاثر ہو کے اسے ہاتھ سے چھونا چاہا تو ’’لہریے‘‘ کے لڑکے نے اس کی آنکھوں میں مرعوبیت کا عکس بھانپتے ہوئے سینہ پھلا کے کہا ہم پہیے کے اوپر چھکڑا لگانے والے ہیں۔ پھر یوں چلے گا… چھکا چھک… چھکا چھک اور اس نے منہ سے ریل گاڑی کے انجن کی سی بھاپ نکالتے سیٹی بجائے اور دونوں ایڑیوں پہ گھوم کے ڈگ ڈگ دوڑنے لگا۔ مہری جس نے آج تک چھکڑا چھوڑ کر کوئی چھوٹا موٹا ’’گڈا‘‘ بھی نہ دیکھا تھا‘ دہلیز کے کگر پہ بیٹھی دیر تک اسی الجھن میں رہی کہ پہیے دوڑا کیسے جاسکتا ہے۔ پہیہ چلے گا تو اوپر کا حصہ نیچے کو گھومے گا۔ اب اوپر بیٹھا شخص کچلا نہ جائے گا کیا؟
(جاری ہے)