قصور کس کا…؟

252

افسانہ مہر
’’کتنی خو ب صورت بارش ہے نا… ماریہ۔‘‘فاریہ جو کافی دیر سے کھڑکی کے سامنے کھڑی تھی،لمبی سانس کھینچتی ہوئی بولی جیسے اس موسم سے ابھرنے والی تمام تازگی خود میں اتار لینا چاہتی ہو۔
’’ہاں بہت خوبصورت ہوتی ہے بارش۔‘‘فاریہ بھی اٹھ کے کھڑکی پر آ گئی اور باہر دیکھ کر بولی۔
’’بارش کی ٹھنڈک دل کا موسم بھی بدل دیتی ہے نا۔‘‘ فاریہ نے جیسے اپنے دل کا حال بتا دیا۔
’’ہوں…‘‘ ماریہ نے مختصر حمایت کی۔ ’’اللہ کرے زیادہ بارش نہ ہو، زیادہ بارش اذیت بن جاتی ہے یہاں۔‘‘فاریہ نے مزید کہا۔
’’ہاں یہ ہی المیہ ہے… جب ہم رحمت کو سنبھالنا ترک کردیتے ہیں تو یہی رحمت زحمت بن جاتی ہے۔‘‘ ماریہ دکھ سے بولی۔
’’افوہ ماریہ توبہ ہے تم سے… اس موسم میں بھی تم ایسی فلسفیانہ باتیں نہ کرو…انجوئے کا موسم ہے یہ۔‘‘ فاریہ بولی۔
’’ہاں تو ابھی تم ہی تو کہہ رہی تھی کہ بارش عذاب بن جاتی ہے… دیکھو جب بھی اور جہاں بھی ذمے داری سے غفلت برتی جائے گی وہاں رحمت بھی زحمت بن جائے گی۔ یہ گلیوں، محلوں میں پھیلا کچرا، ابلتے گٹر ذمہ داریوں سے غفلت کے سبب ہی تو ہیں۔‘‘ ماریہ وضاحت پہ تل گئی۔
’’ بس بس رہنے دو یہ حکومت کی نااہلی ہے… ہماری غفلت نہیں۔‘‘ فاریہ بھی ڈٹ کر بولی۔
’’یہی تو سوچ کا انداز غلط ہے… دیکھو یہ گھر ہمارا ہے ناں‘ اس کا خیال اور اس کی چیزوں کی حفاظت ہم اپنا فرض سمجھتے ہیں ناں… لیکن گلی، محلے کو ہم اپنا نہیں سمجھتے وہ حکومت پر ڈال کر بالکل بری الذمہ ہو جاتے ہیں…کیوں؟ کیاگلی محلہ کی حفاظت ہماری ذمے داری نہیں ہے؟ ہم گاڑی، موٹر سائیکل کو اپنا سمجھتے ہیں مگر روڈ کو نہیں… جب ہم اس ملک کی ہر گلی، محلہ ،شہر کو اپنا سمجھیں گے اور اپنے فرض سے غفلت ترک کردیں گے تب ہی یہ ملک درست ہوگا‘ تب ہی،صاف رہے گا اور ہم یہاں ہر موسم سے لطف اندوز ہوسکیں گے اور بارش رحمت بن کر برستی نظر آئے گی۔