افشاں نوید
مدینہ منور ہ میں قحط کا سامنا ہے۔ حضرت انسؓ فرماتے ہیں ایک شخص جمعہ کے دن اس وقت حاضر ہوا جب آپ ؐخطبہ دے رہے تھے۔ اس نے کہا یارسول اللہ قحط پڑگیا ہے، آپؐ رب سے بارش طلب کیجئے۔ آپ ؐنے آسمان کی سمت دیکھا بادل کا نشان تک نہ تھا۔ آپ ؐنے بارش کے لیے دعا کی، بادل آئے، بارش برسی یہاں تک کہ وادیوں میں پانی بہنے لگا۔ بارش اگلے جمعہ تک برستی رہی۔ آپؐ خطبہ د ے رہے تھے، وہی شخص آیا اور کہا یارسول اللہ! ہم غرق ہوگئے۔ آپؐ رب سے بارش ختم ہونے کی دعا کیجئے۔ آپؐ مسکرائے اور فرمایا اے اللہ ہمارے ارد گرد برسا ، ہم پر نہ برسا۔ یہ دعا دو یا تین مرتبہ مانگی۔ بادل مدینہ سے دائیں اور بائیں چھٹ گئے۔ بارش اطراف میں ہوتی رہی ہم پرمزید نہ برسی۔ اللہ نے دعا قبول فرمائی اور نبیؐ کی کرامت کو ظاہر فرمایا ۔(صحیح بخاری جلد دوم)ـ
بے شک آپؐ کی زندگی میں مسلمانوںکے لیے بہترین نمونہ ہے۔ اس نمونہ کی پیروی کرتے ہوئے ہم آج بھی معاشرے سے فتنہ وفساد کو ختم کرسکتے ہیں۔ دوسرے کی رائے کا احترام کرنا اور اپنی رائے سے دست بردار ہوجانا نفس کی قربانی ہے۔ آپؐ پیغمبر وقت تھے لیکن موقع کی مناسبت سے آپؐصحابہ کی رائے کو اہمیت دے کر ان پر اپنے اعتماد کا اظہار فرماتے۔ صحابہ ؓ اپنی رائے پر اصرارکا نقصا ن دیکھتے تو خود ہی رجوع کرلیتے۔ آپؐ نے صحابہ کی تکریم کر کے ہمیں بھی یہی درس دیا ہے۔
صحیح بخاری میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ’’ــــ لوگوں نے مجھ پر تہمت لگائی تو مجھے عرصہ تک پتہ نہ چلا۔ ام مسطح کے بتانے پر مجھے خبر ہوئی۔ حضور ؐ صحابہ سے مشورہ کرتے،صحابہ مختلف قسم کے مشورے دیتے۔ ایک دن حضورؐ میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا اگر تم بے قصورہو تو اللہ تعالیٰ تمہیں بَری کردے گا اور اگر تم سے غلطی ہوئی ہے تو معافی مانگ لو ،اللہ تعالیٰ معاف کردیں گے۔‘‘ فرماتی ہیں’’ــــ اس سے قبل کئی رات دن ایسے گزرے کہ میں روتی رہی اور نیند نہ آئی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمانے پر نہ میرے والد نے کوئی جواب دیا نہ میری ماں نے۔‘‘
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی والدہ فرماتی ہیں کہ حضورؓ ابھی یہاں سے جدا نہ ہوئے تھے کہ آپؐ پر وحی کا نزول شروع ہوا۔ جب وحی منقطع ہوئی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہنس رہے تھے۔ آپ نے فرمایا ’’اے عائشہ! اللہ نے تجھے بری کردیا‘‘۔ (بخاری جلد دوم)
ہم اور ہمارے ماں باپ قربان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس تبسم پر۔ آپؐ اس سے قبل کس قدر ذہنی اذیت سے گزرے تھے۔ آپؐ چاہتے تو اپنی پاکیزہ بیوی کی عصمت کی قسم کھالیتے ۔زبانیں بند ہوجاتیں مگرآپؐ رہتی دنیا تک مثال قائم کر کے جانا چاہتے تھے کہ ایسے حساس معاملات میں طرز عمل کیا ہونا چاہیے۔ اس روایت میں دیکھیے کہ خود حضرت عائشہؓ کے والدین خاموش ہیں۔ وہ بیٹی کی صفایٔ میں بول سکتے تھے ۔ صحابہ تلواریں لے کر کھڑے ہوجاتے کہ کس کی مجال ہے کہ ازواج مطہرات کی عزت وعصمت پر انگلی بھی اٹھائے۔ آپؐ نے ایسا پاکیزہ معاشرہ تشکیل دیا تھا کہ کوئی آپؐ سے پیش قدمی کا تصور بھی نہ کرسکتا تھا۔ اللہ نے آپؐ کے خاندان کو صبر کے بدلے میں ایسا اکرام دیا کہ حضرت عائشہؓ کی برأت قرآن میں ثبت فرمائی جس کو قیامت تک پڑھا جائے گا ۔
حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ صحابہ اکرام کی ایک جماعت نے دوران سفر میں ایک جگہ پڑائو ڈالا۔ وہاں قبیلہ کے لوگوں سے کچھ کھانے کو مانگا، انہوں نے انکار کردیا۔ اتفاق سے قبیلہ کے سردار کو بچھو نے کاٹ لیا۔ لوگوں نے ہر طرح کی کوشش کی مگرآرام نہ آیا۔ ان میں سے کسی نے کہا کاش! تم قافلے والوں کے پاس جاتے جنھوں نے یہاں پڑائو ڈالا ہے،شاید ان میں سے کسی کے پاس کوئی کام کی چیز ہو ۔کچھ لوگ صحابہؓ کے پاس آئے اور کہا اے لوگو! ہمارے سردار کو بچھو نے کاٹ لیا ہے ہم نے کوشش کی مگر فائدہ نہیں ہوا ۔کیا تمہارے پاس کوئی دم کرنے والاہے۔ ایک صحابی نے کہا میں دم جانتا ہوںلیکن تم نے ہمیں کھانا کھلانے سے انکار کردیا تھا۔ خدا کی قسم میں بھی بغیر معاوضہ کے دم نہ کروں گا۔ انہوںنے ایک ریوڑ بکریوں کی پیشکش کی ۔صحابی نے جاکر سورۂ فاتحہ پڑھ کر دم کرنا شرو ع کیا یہاں تک کہ سردار کو آرام آگیا۔ ان لوگوں نے ریوڑ صحابہؓ کے حوالے کردیا۔ انہوںنے بکریاں آپس میں تقسیم کرلیں ۔دم کرنے والے نے کہا ایسا نہ کرو، ممکن ہے یہ اجرت جائز نہ ہو، پہلے حضور ﷺ سے پوچھ لو۔ یہ جماعت آپﷺکی خدمت میں حاضر ہوئی اور واقعہ بیان کیا۔ آپﷺ نے فرمایا تم کو یہ کیسے معلوم ہوا کہ یہ سورۃ دم کا کام دیتی ہے؟ اچھا جو تم نے کیا ٹھیک کیا ۔جائو اس مال کو آپس میں تقسیم کرلو۔ مسکراتے ہوے فرمایا ’’ تقسیم میں مجھے بھی شریک کرلینا ۔‘‘ (بخاری جلد چہارم)ــــ
مجھے بھی شریک کرلینا، فرماتے ہوے آپﷺ نے تبسم فرمایا۔آپﷺ نے خود کو اصحاب کی صف میں رکھا کیوں کہ تمام زندگی (باوجود اس کے کہ آپ نبی تھے) آپﷺنے ارادتاً کبھی بھی خود کو نمایاں نہ کیا،گھل مل کر رہے۔ آپ نے یگانگت اور محبت ظاہر کرنے کے لیے فرمایا کہ میرا بھی حصہ رکھنا اور مسکرائے۔
حضرت عمر ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص حضور ﷺکی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ ﷺسے سوال کیا۔ آپ ﷺنے فرمایا میرے پاس کچھ نہیں ہے میں تجھے کیا دوں؟ تو میرے نام سے کوئی چیز خرید لے جب میرے پاس کچھ آئے گا تو میں اس کا قرض ادا کردوں گا۔ یہ سن کر حضرت عمرؓ نے عرض کیا یارسول اللہ! آپ نے اس آدمی کو دیا لیکن اللہ نے آپ کو اس بات کا مکلف نہیں کیاجس کی آپ میں طاقت نہ ہو۔ آپ ﷺکو حضرت عمرؓ کی بات اچھی نہ لگی۔ ایک انصاری صحابی نے عرض کیا یارسول اللہ! آپ خرچ کیجئے عرش والے کی طرف سے تنگی کااندیشہ نہیں۔ یہ سن کر حضور ﷺمسکرادئیے۔ (ترمذی، ابن جریر، طبرانی)
آپ ﷺپر لاکھوں درود وسلام۔ آپ ﷺکی مسکراہٹ کا سبب یہ تھا کہ آپ ﷺکی نظر عرش کے خزانوں پر تھی۔
حضرت عمرص سفرماتے ہیں، رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کی وفات ہوئی تو حضور ﷺسے نماز جنازہ پڑھانے کے لیے درخواست کی گئی۔ آپ ﷺتشریف لے گئے۔ جنازے کے پاس کھڑے ہوئے۔ نماز پڑھانے کا ارادہ کیا تو میں اپنی جگہ سے ہٹ کر حضور ﷺکے سینہ مبارک کے سامنے کھڑا ہوگیا۔ میں نے عرض کیا یارسول اللہ! کیا آپ اللہ کے دشمن کی نماز جنازہ پڑھائیں گے؟ کیا عبداللہ بن ابی کی؟ جو فلاں اور فلاں دن ایسا اور ایسا کہتا تھا ۔ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں حضور ﷺسن کر تبسم فرمارہے تھے ،میں نے اس کی منافقت کے بہت سے واقعات دہرائے۔ آپ ﷺنے فرمایا اے عمر! ہٹ جائو ،مجھے اختیار دیا گیا ہے کہ میں چاہوں تو اس کے لیے استغفار کرو ں،چاہوں تو نہ کروں، میں نے اختیارکا انتخاب کیا ہے۔تھوڑی میں سورۂ توبہ کی آیتیںنازل ہوئیں اور آپ ﷺکو منافقین کی نمازِ جنازہ پڑھنے سے منع کیاگیا۔ اس کے بعد حضور ﷺنے اپنی وفات تک کسی منافق کی نماز جنازہ نہیں پڑھائی۔ (بخاری، ترمذی، احمد)
حضرت عمر فاروق ص کی غیرت ایمانی کہہ رہی تھی کہ آپ ﷺکو منافقوں کے سردار کی نماز جنازہ نہیں پڑھانی چاہیے۔ آپﷺ حضرت عمرص کا اصرار دیکھ کر مسکراتے ہیں اور ان کو دلیل کے ذریعے مطمئن کرتے ہیں کہ اللہ نے مجھے اختیار دیا ہے کہ استغفار کروں یا نہ کروں ،میں استغفارکرنے کو پسند کرتا ہوں۔
حضرت عبداللہ بن مسعودص راوی ہیں کہ ایک یہودی عالم ،خدمت اقدس ﷺمیں حاضر ہوا ۔اس نے کہا اے محمد! اللہ تعالیٰ نے تمام آسمانوں کو ایک انگلی پر لیا، تمام زمینوں کو ایک انگلی پر، پہاڑوں اور درختوں کو ایک انگلی پر، پانی اور دلدل کو ایک انگلی پر اور ان کو حرکت دی اور فرمایا میں ہی بادشاہ ہوں اور میں ہی مالک ہوں۔ حضرت عبداللہ بن مسعودص کہتے ہیں کہ یہ سن کر حضور ﷺاس قدر ہنسے کہ آپ ﷺکی داڑھیں نظر آنے لگیں۔ یہ ہنسنا یہودی عالم کی تصدیق کے لیے تھا۔ (البیہقی)یہودی عالم نے اپنے علم کے مطابق اللہ کی کبریائی استعاروں اور تشبیہات کے ساتھ بیان کی۔ آپ ﷺکا دل شاد ہوگیا آپ ﷺمسکرائے اور اس کی تصدیق کی۔
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں ایک روز میں نے حضور ﷺسے کہا آپ بتائیں اگر آپ کو دو چیزیں ملیں ایک مستعمل ہو اور دوسری غیر مستعمل ہو تو آپ کون سی چیز کو پسند فرمائیں گے؟ آپ ﷺنے فرمایا غیر مستعمل کو۔ میں نے کہا آپ ﷺکی دوسری بیویوں جیسی نہیں ہوں کیوں کہ وہ پہلے خاوندوں سے ہوکر آئی ہیں اور میں صرف آپ ﷺکے پاس آئی ہوں۔ یہ سن کر حضور ﷺمسکرادئیے۔ (طبقات ابن سعد جلد ہشتم)آپ ﷺاپنی ازواج کے حق میں انتہائی شفیق اور رحیم تھے۔ آپ ﷺنے امت کے لیے سبق چھوڑا ہے کہ بیویوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہیے۔ آپ ﷺکی خوش طبعی جس طرح اپنے ساتھیوں کے لیے تھی ویسی ہی خانگی زندگی میں بھی تھی۔
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک دن حضور ﷺمیرے پاس تشریف لائے میں نے پوچھا آج سارا دن کہاں رہے؟ آپ ﷺنے فرمایا: ام سلمیٰ ؓ کے پاس۔ میں نے کہا آپ ﷺام سلمیٰؓ سے سیر نہیں ہوتے؟ یہ سن کر آپ ﷺمسکرادئیے۔ (طبقات ابن سعد)مسکراہٹ سے زیادہ اچھا اس بات کا کیا جواب ہوسکتا تھا۔ آپ ﷺاپنے گھر والوں کے ساتھ سب سے اچھے تھے اور آپ ﷺ نے امت کے مردوں کو یہ درس دیا کہ جو اپنے اہل خانہ کے ساتھ اچھا ہے وہی سب سے اچھا ہے۔ آپ ﷺنے بار بار بیویوں کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین کی۔ گھر کو جنت بنانے کیلئے خوش طبعی سے بڑا کوئی ہتھیار نہیں ہوسکتا۔
حضرت عائشہ ؓ اپنے بچپن کا ایک واقعہ سناتے ہوے فرماتی ہیں ’’ ـایک دن حضور ﷺہمارے گھر تشریف لائے ،میں اپنی سہیلیوں کے ساتھ کھیل رہی تھی۔ ہمارے پاس ایک پروں والا گھوڑا تھا۔ حضور ﷺنے پوچھا اے عائشہ یہ کیا ہے؟ میں نے کہا گھوڑا۔ آپ نے فرمایا کیا گھوڑے کے پر ہوتے ہیں؟ میں نے کہا یہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا گھوڑا ہے کیوں کہ اس کے پر تھے۔ یہ سن کر حضور ﷺہنس پڑے۔ــ‘‘ (ایضاً)یہ حضرت عائشہ ؓ کی ذہانت کی دلیل تھی۔ آپ کے علمی کارنامے امت کا قابلِ فخر سرمایہ ہیں۔ آپ ﷺکی خوش طبعی نے گھر کا ماحول ایسا رکھا کہ آپ ﷺکی ازواج کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا پورا موقع ملا
(جاری ہے)