اب کچھ کرنا ہوگا

216

جہانزیب راضی
جب کبھی بھی دنیا میں کوئی فیکٹری یا انڈسٹری لگائی جاتی ہے تو اس کا سب سے بنیادی ہدف اس کی پروڈکٹ ہوتی ہے۔ سوال یہ ہوتا ہے کہ اس کے ذریعے سے آپ مارکیٹ میں کون سی پروڈکٹ لانا چاہتے ہیں؟ پھر کچھ عرصے کے بعد اس بات کا بھرپور جائزہ بھی ہوتا ہے کہ آیا آپ اس معیار کی پروڈکٹ نکال بھی رہے ہیں یا نہیں جس کے لیے آپ نے لگایا تھا اور آپ جیسی بھی پروڈکٹ مارکیٹ میں لارہے ہیں محض وہ مارکیٹ میں ایک اضافہ ہے یا اس اضافے کے ساتھ ساتھ مارکیٹ میں اس کا وزن اور کسی نئے حوالے سے اس کی پہچان بھی ہے یا نہیں ؟
یہ ساری تمہید باندھنے کا مقصد اور مدعا پرائیوٹ اسکولز کی بڑھتی ہوئی تعداد ہے لیکن معلوم یہ ہوتا ہے کہ یہ تمام اسکول جنگل میں موجود درختوں میں محض ایک درخت کا اضافہ ہے۔ آپ کسی بھی اسکول کے مالک سے دریافت کریں تو ان میں سے اکثر کا مقصد کاروبار کرنا ہے اور اسکول میں آنے والے ان کے کسٹمرز ہیں۔ اس سے انکار بھی نہیں ہے کیونکہ اگر وہ ان سے فیس نہیں لے گا تو اسکول اور اس کے اخراجات کہاں سے پورے ہوں گے؟ لیکن دوسری طرف تمام ہی اسکول مالکان کا جواب ہوگا کہ ہم محب وطن پاکستانی بنانا چاہتے ہیں جو بڑے ہوکر ملک و قوم کی خدمت کرے اگر کسی اسکول کا مالک اسلام پسند ہوگا تو اس کی سوچ ملک و قوم سے ذرا بڑھ کر ملت اسلامیہ اور امت مسلمہ تک چلی جائے گی۔ لیکن کیا کبھی ان اسکول نے کبھی اس بات کا جائزہ لیا کہ ہمارے اسکول سے نکلے ہوئے طلبہ اس وقت کہاں ہیں؟ وہ یقیناً کسی اسپتال میں ڈاکٹر ہوںگے‘ کسی فرم میں انجینئر ہوںگے یا کوئی کاروبار کر رہے ہوںگے۔ تو یہ ہر اسکول کا بچہ کر رہا ہے آپ کے اسکول کے بچے نے بھی کیا تو کون سا کمال کیا؟
ہر اسکول کا بچہ محض صنعتوں کا پرزہ بن رہا ہے اور مختلف صنعتوں کو پرزے فراہم کر رہا ہے۔ کسی بھی اسکول سے کوئی تحقیقی یا تخلیقی پروڈکٹ سامنے نہیں آپا رہی ہے۔ اگر اس 21 کروڑ 90 لاکھ کی آبادی میں کوئی ڈاکٹر عبدالقدیر خان، ڈاکٹر عطا الرحمن، ڈاکٹر عبد السلام پیدا ہوا ہے تو وہ خدا کی طرف سے ہے کسی اسکول کا اس میں کوئی کمال نہیں اور اب تو یہ ہیرے بھی پیدا ہونا بند ہوگئے ہیں کیونکہ کسی اسکول کی ترجیح میں یہ نہیں ہے۔ الا ماشاء اللہ مگر یہ تمام اسکول جس قسم کی پروڈکٹ نکال رہے ہیں ان کی سوچ اپنی ذات سے باہر دیکھنے تک کے لیے تیار نہیں ہے۔ کتنا ہی اسلام پسند اسکول کیوں نہ ہو اس اسکول کو‘ اس بچے کو اور اس بچے کے والدین کو بھی اپنے بچے کا اے ون گریڈ مطلوب ہے‘ کسی اچھی یونیورسٹی سے گریجویشن اور پھر کسی ملٹی نیشنل کمپنی میں اچھی تنخواہ جس کے بعد اس کے پاس اچھی گاڑی، بنگلہ، اسٹیٹس اور ہر قسم کی آسائش۔ باقی رہی یہ امت اور یہ ملک تو اس کا ٹھیکہ نہ اس اسکول نے لیا ہے اور نہ ہی اسکول کے بچوں نے … نتیجہ یہی ہوگا جو اس ملک اور اُمت کے ساتھ ہورہا ہے۔
یہودی دنیا کی کامیاب ترین قوم ہے کیونکہ وہ اپنے بچوں کو اپنی قوم کے بارے میں سوچنا سکھاتے ہیں‘ دنیا میں کہیں ایک ڈالر کا بھی کاروبار ہوگا اس کا فائدہ کسی نہ کسی صورت میں یہودیوں کو ہوگا۔ دنیا میں سونے کے اصل مالکان یہودی ہیں کیوں ؟ کیونکہ انھوں نے اپنی قوم کو یہ وژن دیا ہے کہ تم اکیلے کچھ بھی نہیں ہو۔ نیویارک اور واشنگٹن کی گلیوں میں خانہ بدوشوں کی سی زندگی گزارنے والی قوم آج دنیا میں بادشاہ ہے‘ہم پر حکمران ہیں۔ پورے امریکا میں یہودیوں کی تعداد 2 فیصد بھی نہیں ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکا کی یونیورسٹیوں میں 90 فیصد پروفیسرز یہودی ہیں۔ آپ کو نیویارک میں صبح اسکول جاتے ہوئے سب سے مہذب اور سنجیدہ بچے جو دکھائی دیں تو سمجھ جائیں کہ وہ یہودی ہیں۔
دوسری جانب پوری امتِ مسلمہ میں اوسطاً دس لاکھ میں ایک سائنسدان ہے۔ یہ کتنا بڑا المیہ ہے۔ وسا ئل سے مالا مال خلیجی ممالک میں کسی قسم کا کوئی تخلیقی اور تحقیقی کام سرے سے ناپید ہے۔ محض عیاشیاں ہیں اور وہ بھی یہود و نصاریٰ کی مرہون منت ہیں۔ ہمیں امت مسلمہ میں اور پاکستان میں بل گیٹس ‘ مارک زرک برگ اور اسٹیوجابز مطلوب ہیں۔ مارک زرک برگ فیس بک سے حاصل ہونے والی آمدنی کا بڑا حصہ اسرائیل کو دیتا ہے اور بہ خوشی دیتا ہے کیونکہ وہ اس قوم کا حصہ ہے۔ وہ اپنی سوشل میڈیا ویب سائیٹ پر اپنی قوم کے خلاف بولنے والوں کو زیادہ دیر برداشت بھی نہیں کرتا ہے۔ لیکن ایسے لوگ اور شخصیتیں حادثاتی طور پر پیدا نہیں ہوا کرتیں‘ کبھی آپ نے غور کیا کہ سارے سائنسدان تحقیقی اور تخلیقی کام کرنے والے امریکا، چین،روس اور ان جیسے دیگر ممالک میں ہی کیوں پیدا ہوتے ہیں؟
اس کی سب سے بڑی وجہ تعلیمی نظام ہے۔ جن کی سوچ صنعتوں کو پرزے فراہم کرنا نہیں بلکہ دنیا کو ایک نئی سوچ دینا ہے‘ افراد کا جم غفیر تبدیلی نہیں لایا کرتا‘ یہ لیڈر ہوتے ہیں، اسکالر ہوتے ہیں ، سائنسدان ہوتے ہیں، تحقیقی اور تخلیقی کام کرنے والے ہوتے ہیں‘ جو نسل کی نسل تبدیل کردیتے ہیں۔
یہ بل گیٹس ہے جس نے ساری دنیا کو مائیکرو سافٹ دے کر نئے زمانے میں داخل کیا ہے۔ یہ مائو زے تنگ ہے جس نے چین جیسی افیونی قوم کو سپر پاور بنا دیا‘ یہ محمد علی جناح ہے جس نے دنیا کے نقشے پر ایک علیحدہ ریاست کی بنیاد رکھی اور یہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہے جس نے پوری پاکستانی قوم کو سر اٹھا کر جینا سکھایا ہے۔
25 سال قوموں کی زندگی میں بہت اہم ہوتے ہیں کیونکہ پچیس سالوں میں ایک نسل کی جگہ دوسری نسل لے لیتی ہے۔ ہم اگر اس ملک کو سپر پاور دیکھنا چاہتے ہیں‘ اگر اس ملک کو امت کی قیادت کرتا دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے 25 سال اس قوم کو دینے ہوں گے۔ ہمیں ایک ایسا اسکول درکار ہے جس کے پاس پلاننگ ہو‘ ایجنڈا ہو اور اگلے دس سال کے بعد اس بات کا جائزہ بھی لیا جائے کہ ہم کہاں تک پہنچے؟ جو اپنے نصاب میں اتنا جدید ہو کہ فن لینڈ، جاپان ، چین اور سنگاپور کا مقابلہ کرے تو 25 سال کے بعد اس ملک کو کم از کم 2500 بیورو کریٹس دے سکے‘ 2500 ایسے جرنل‘ کرنل اور میجر تیار کرسکے جو فوج کے اعلیٰ عہدوں پر براجمان ہوں‘ جو کم از کم 1000ایسے پروفیسر تیار کر سکے جو یہی نظریہ اپنے شاگردوں کو منتقل کر سکیں‘ کم از کم 2500 ایسے لوگ تیار کرسکے جو اس ملک کے کونے کونے میں ایسے سیکڑوں اسکول ،کالج اور یونیورسٹی کھول سکیں اور اس کے ساتھ ساتھ معاشیات ، فلسفہ ، قانون تقابل ادیان اور عمرانیا ت ( سوشل سائنسز ) میں ایسے بڑے بڑے علما اور اسکالر پیدا کرے جو لوگوں کے ذہنوں کو تبدیل کرنے والے ہوں۔ اگر آج ہم ایک ایسا ادارہ بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو مجھے امید ہے کہ 2050ء تک ہمیں سپر پاور بننے سے کوئی نہیں روک سکتا ہے۔ ان شاء اللہ۔