شانِ سرکار دوجہاں محمد عربی صلی اﷲ علیہ وسلم

340

زہرا تنویر
سرکار احمد دوجہاں امام الانبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جب ولادت باسعادت ہوئی تو حضرت جبرائیل امین علیہ السلام کی قیادت میں فرشتوں کا ایک گروہ آیا اور سرزمین مکہ کو اپنے گھیرے میں لے لیا۔ کائنات کا ذرہ ذرہ خاتم النبین امام الحرمین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی خوشی سے نہاں تھا۔ عرش و فرش کی تمام موجودات سجدہ ریز تھیں کہ آج ان کی ولادت ہوئی جن کے لیے خالق نے کائنات کی تخلیق کی۔ جن کے وجود کی خاطر ارض و سماں کا نظام بنا۔ جناب حضرت عبداللہ اپنے سردار انبیاء کا لقب پانے والے بیٹے کی پیدائش سے قبل ہی واقعہ فیل کے کچھ دنوں بعد ہی شام سے مدینہ آتے ہوئے انتقال فرما گئے۔ جناب عبدالمطلب بیٹے کی وفات کی وجہ سے غمگین تھے کہ جناب عبداللہ کے بیٹے کی ولادت کی خوشخبری سننے کو ملی۔ بی بی آمنہ سلام اللہ علیہ فرماتی ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ہوئی تو میرے اطراف نور ہی نور تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دنیا میں تشریف آتے ہی کائنات میں ہر سو اجالے بکھرنے لگے۔ ساوہ کی جھیل جس کی لوگ پرستش کرتے تھے خشک ہو گئی۔ محل کسری پانی سے بھر گیا اور کسی کے سب کنگرے ٹوٹ کر زمین پر گر گئے۔ فارس کا آتش کدہ خاموش ہو گیا۔
حضرت عرباض بن ساریہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ” اللہ کے ہاں میں خاتم النبین (اس وقت) لکھا ہوا تھا جب حضرت آدم علیہ السلام اپنی گوندھی ہوئی مٹی میں پڑے ہوئے تھے۔ میں تم کو اپنے امر کی ابتدا بتلاتا ہوں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا ہوں اور حضرت عیسی علیہ السلام کی بشارت ہوں اور اپنی والدہ کا خواب ہوں کہ جب میں پیدا ہوا۔ انہوں نے دیکھا کہ ایک نور ان سے نکلا ہے جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے”۔ (مستدرک صحیحین جلد 2 ح 4175)
اس حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت عام عام نہ تھی۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کے لیے نبوت کس وقت ثابت ہوئی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ” جب آدم علیہ السلام روح اور جسم کے درمیان تھے”۔ (سنن الترمذی جلد 2 ح 3609 باب المناقب فضل نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی مدارج نبوۃ میں لکھتے ہیں کہ جان لو اول مخلوقات اور ساری کائنات اور تخلیق آدم علیہ السلام کا ذریعہ نور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے چنانچہ حدیث میں صحیح آیا ہے کہ سب سے پہلے اللہ سبحان تعالی نے جس چیز کو پیدا فرمایا وہ نور میرا ہے۔
ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ظاہری طور پر چالیس سال بعد نبوت نازل ہوئی۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سے پہلے نبوت کے درجے پر فائز نہ تھے۔ آپ اپنے اخلاق کردار اور سیرت سے تبلیغ کرتے رہے لیکن گفتار اور وحی الہی کا سلسلہ چالیس برس بعد ہوا۔ اور حکم الہی سے اعلان نبوت کیا اور لوگوں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔
5فضیلتیں:
حضرت جابر بن عبداللہ انصاری سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ” مجھے پانچ ایسی چیزیں دی گئی ہیں کہ مجھ سے پہلے کسی کو عطا نہیں ہو ئیں۔ ایک ماہ کے راستے کے فاصلے تک مجھے رعب و دبدبہ دیا گیا۔ میرے لیے زمین کو جائے سجدہ اور طاہر قرار دیا گیا ہے۔ میری امت میں سے جو بھی نماز کا وقت پا لے اسے نماز پڑھنی چاہئیے۔ میرے لیے مال غنیمت حلال کیا گیا ہے اور مجھ سے پہلے کسی کے لئے حلال نہیں کیا گیا۔ مجھے شفاعت کرنے کا حق دیا گیا ہے۔ پہلے نبی صرف اپنی قوم کے لیے معبوث ہوئے تھے لیکن میں تم لوگوں کے لیے معبوث کیا گیا ہوں”۔(صحیح بخاری کتاب التیمم باب 1 ح 335 )
اللہ نے جو نبوت کا مقام سرکار دو عالم کو دیا وہ کسی اور نبی کو نہیں دیا۔ آپ انبیاء کے سردار اور خاتم النبین کے اعلیٰ مقام پر فائز ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام جہانوں کے لیے رحمت العالمین قرار دیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اخلاق کی علی درجہ پر فائز ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق و سیرت اتنا عمدہ اور بلند ہے کہ کوئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ثانی نہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جب کوئی بات کرتا تو پوری توجہ سے دوسرے کی بات سنتے پھر اس کا جواب دیتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انداز گفتگو اتنا مہربانی والا اور شریں ہوتا کہ سامنے والا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت اور علی مقام سے مرعوب ہوتے ہوئے بھی نہایت آسانی سے اپنی بات اور مسئلہ بیان کرتا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اخلاق اپنے اصحاب سے بھی اتنا مہربانہ تھا کہ اصحاب کو بلاتے وقت ان کی کنیت سے پکارتے اور عزت واحترام دیتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عمدہ اخلاق کے حضور کے دشمن بھی قائل تھے۔
جنگ کے وقت لشکر روانہ کرتے ہوئے نصیحت فرماتے کہ اللہ کا نام لے کر روانہ ہوں اور جہاد کریں۔ اے لوگو! امت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مکر نہ جانا۔ مال غنیمت چوری نہ کرنا، کفار کو مثلہ نہ کرنا(ان کو قتل کرنے کے بعد انکے ناک،کان اور اعضاء کو نہ کاٹنا)۔ بچوں بوڑھوں اور عورتوں کو نقصان نہ پہنچانا۔ مشرکوں کی عبادت گاہوں کو نقصان نہ پہنچانا۔ دشمن پر شب خوں نہ مارنا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق کی نرمی ایک طرف تو ان کی اعلیٰ سیرت کی نشانی ہے اور دوسری جانب امت کے لیے عملی نمونہ۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ ہمارے لئے مشعل راہ اور نجات کا ذریعہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارک کا ہر پہلو اور عمل وحی الہی ہے۔ ہماری بخشش کا سامان آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس میں پنہاں ہے۔ زندگی گزارنے کے جو اصول اور قاعدے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتائے ہیں ان پر عمل پیرا ہو کر ہی ہم دنیا وآخرت میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت تب ہی ملے گی جب ہمارا اخلاق اور کردار اچھا ہو گا۔ کیونکہ ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ سبحان تعالی نے شفاعت کرنے کا حق عطا کیا ہے جو اس سے پہلے کسی نبی اور رسول کو حاصل نہیں تھا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ ” میں پہلا شفاعت کرنے والا ہوں اور پہلا ہوں جس کی شفاعت قبول کی گئی”۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شفاعت کا حق حاصل ہونا اللہ رب العزت کی اپنے پیارے نبی سے محبت کی ایک نشانی ہے۔

خلقت مبرا من کل عیب
کانک قد خلقت کما تشاء