مجالسِ نبوی ﷺ

1101

سید سلیمان ندوی
شہنشاہِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کا دربار نقیب و چائوش اور خَیل و حَشم کا دربار نہ تھا۔ دروازہ پر دربان بھی نہیں ہوتے تھے۔ تاہم نبوت کے جلال سے ہر شخص پیکر ِتصویر نظر آتا تھا۔ حدیثوں میں آیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں لوگ بیٹھتے تو یہ معلوم ہوتا کہ ان کے سروں پر چڑیاں بیٹھی ہوئی ہیں یعنی کوئی شخص ذرا بھی جنبش نہیں کرتا تھا۔ گفتگو کی اجازت میں ترتیب کا لحاظ رہتا تھا۔ لیکن یہ امتیاز مراتب، نسب و نام یا دولت و مال کی بنا پر نہیں بلکہ فضل و استحقاق کی بنا پر ہوتا تھا۔ سب سے پہلے اہلِ حاجت کی طرف متوجہ ہوتے اور ان کے معروضات سن کر ان کی حاجت برآری فرماتے۔
تمام حاضرین ادب سے سرجھکائے رہتے، خود بھی آپؐ مؤدب ہو کر بیٹھتے۔ جب کچھ فرماتے تو تمام مجلس پر سناٹا چھا جاتا۔ کوئی شخص بولتا تو جب تک چْپ نہ ہوجائے، دوسرا شخص بول نہیں سکتا تھا۔ اہلِ حاجت عرضِ مدعا میں ادب کی حد سے بڑھ جاتے تو آپؐ کمالِ حلم کے ساتھ برداشت فرماتے۔ آپؐ کسی کی بات کاٹ کر گفتگو نہ فرماتے جو بات ناپسند ہوتی، اس سے تغافل فرماتے اور ٹال جاتے۔ کوئی شخص شکریہ ادا کرتا تو اگر آپؐ نے واقعی اس کا کوئی کام انجام دیا ہے تو شکریہ قبول فرماتے۔ مجلس میں جس قسم کا ذکر چھِڑ جاتا آپؐ بھی اس میں شامل ہوجاتے۔
ہنسی اور مہذب ظرافت میں بھی شریک ہوتے۔ کبھی کسی قبیلہ کا کوئی معزز شخص آجاتا تو حسبِ مرتبہ اس کی تعظیم فرماتے۔ مزاج پْرسی کے ساتھ ہر شخص سے دریافت فرماتے کہ کوئی ضرورت اور حاجت تو نہیں ہے۔ یہ بھی فرماتے کہ جو لوگ اپنے مطالب مجھ تک نہیں پہنچا سکتے مجھ کو ان کے حالات اور ضروریات کی خبر دو۔
ایران میں معمول تھا کہ جب مجلس میں کوئی معزز شخص آجاتا تو سب تعظیم کو کھڑے ہوجاتے۔ یہ بھی قاعدہ تھا کہ رؤسا اور امراء جب دربار جماتے تو لوگ سینوں پر ہاتھ رکھ کر کھڑے رہتے۔ آپ نے ان باتوں سے منع فرمایا اور ارشاد کیا کہ ’’جس کو یہ پسند آتا ہے کہ لوگ اس کے سامنے تعظیم سے کھڑے رہیں، اس کو اپنی جگہ دوزخ میں ڈھونڈنی چاہیے۔‘‘ البتہ جوشِ محبت میں کسی کسی کے لیے کھڑے ہوجاتے۔
چنانچہ سیدہ فاطمہ زہراؓ جب کبھی آجاتیں تو اکثر کھڑے ہوجاتے اور فرطِ محبت سے ان کی پیشانی چومتے۔ (حلیمہ سعدیہ کے لیے بھی آپ نے اٹھ کر چادر بچھا دی تھی۔ اسی طرح ایک دفعہ آپ کے رضاعی بھائی آئے تو ان کے لیے بھی محبت سے کھڑے ہوگئے اور ان کو اپنے سامنے بٹھایا۔)
آدابِ مجلس
ان مجالس میں آنے والوں کے لیے کوئی روک ٹوک نہ تھی۔ عموماً بدو اپنے اسی وحشت نما طریقہ سے آتے اور بے باکانہ سوال و جواب کرتے۔ خلقِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا منظر ان مجالس میں زیادہ حیرت انگیز بن جاتا ہے۔ آپؐ پیغمبر خاتم کی حیثیت سے رونق افروز ہیں۔ صحابہؓ عقیدت کیش غلاموں کی طرح خدمتِ اقدس میں حاضر ہیں۔ ایک شخص آتا ہے اور اس کو نبی اکرمؐ اور حاشیہ نشینوں میں کوئی ظاہری امتیاز نظر نہیں آتا۔ لوگوں سے پوچھتا ہے ’’محمد کون ہے؟‘‘ صحابہ بتاتے ہیں کہ یہی گورے سے آدمی جو ٹیک لگائے ہوئے بیٹھے ہیں۔ وہ کہتا ہے اے ابنِ عبدالمطلب! میں تم سے نہایت سختی سے سوال کروں گا، خفا نہ ہونا۔ آپؐ بخوشی سوال کی اجازت دیتے ہیں۔
بایں ہمہ سادگی و تواضع، یہ مجالس رعب، وقار اور آدابِ نبوتؐ کے اثر سے لبریز ہوتی تھیں۔ نبی اکرم ؐ کی تعلیمات و تلقینات کا دائرہ، اخلاق، مذہب اور تزکیہ نفوس تک محدود تھا۔ اس کے علاوہ اور باتیں منصبِ نبوتؐ سے خارج تھیں۔ لیکن بعض لوگ نہایت معمولی اور خفیف باتیں پوچھتے تھے۔ مثلاً یارسول اللہ! میرے باپ کا کیا نام ہے؟ میرا اونٹ کھو گیا ہے، وہ کہاں ہے؟ آپؐ اس قسم کے سوالات کو ناپسند فرماتے تھے۔
ایک بار اسی قسم کے لغو سوالات کیے گئے تو آپؐ نے برہم ہو کر فرمایا کہ ’’جو پوچھنا ہے پوچھو، میں سب کا جواب دوں گا۔‘‘ سیدنا عمرؓنے آپؐ کے چہرے کا رنگ دیکھا تو نہایت اِلحاح کے ساتھ کہا رضیت (میں خوش ہوں)۔ کوئی شخص کھڑے کھڑے سوال نہیں کرتا تھا۔ ایک شخص نے اس طرح سوال کیا تو آپؐ نے اس کی طرف تعجب سے دیکھا۔ اسی طرح یہ بھی معمول تھا کہ جب ایک مسئلہ طے ہوجاتا تو دوسرا مسئلہ پیش کیا جاتا۔ بعض اوقات آپؐ گفتگو کر رہے ہوتے، کوئی صحرا نشین بدو جو آداب مجلس سے ناواقف ہوتا، دفعتاً آجاتا اور عین سلسلہ تقریر میں کوئی بات پوچھ بیٹھتا۔ آپؐ سلسلہ تقریر قائم رکھتے اور فارغ ہو کر اس کی طرف متوجہ ہوتے اور جواب دیتے۔‘‘
اوقاتِ مجلس
اس قسم کی مجالس کے لیے جو خاص وقت مقرر تھا وہ صبح کا تھا۔ نماز فجر کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ جاتے اور فیوضِ روحانی کا سرچشمہ جاری ہو جاتا۔ بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر نماز کے بعد آپؐ ٹھہر جاتے اور مجلس قائم ہو جاتی۔ چنانچہ کعب بن مالکؓ پر جب غزوہ تبوک کی غیرحاضری کی وجہ سے عتاب نازل ہوا تو وہ ان ہی مجالس میں آ کر نبی اکرم ؐ کی خوشنودیِ مزاج کا پتا لگاتے۔
چونکہ افادہ عام ہوتا تھا اس لیے آپؐ چاہتے تھے کہ کوئی شخص فیض سے محروم نہ رہنے پائے۔ اس بنا پر جو لوگ ان مجالس میں آ کر واپس چلے جاتے تو ان پر آپؐ نہایت ناراض ہوتے تھے۔ آپؐ ایک مرتبہ صحابہؓ کے ساتھ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ تین شخص آئے۔ ایک صاحب نے حلقہ میں تھوڑی سی جگہ خالی پائی، وہیں بیٹھ گئے۔ دوسرے صاحب کو درمیان میں موقع نہ ملا، اس لیے سب کے پیچھے بیٹھے۔ لیکن تیسرے صاحب واپس چلے گئے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب فارغ ہوئے تو فرمایا کہ ان میں سے ایک نے خدا کی طرف پناہ لی، خدا نے بھی اس کو پناہ دی۔ ایک نے حیا کی، خدا بھی اس سے شرمایا۔ ایک نے خدا سے منہ پھیرا، خدا نے بھی اس سے منہ پھیر لیا۔ پندونصائح کتنے ہی مؤثر طریقے سے بیان کیے جائیں لیکن ہمیشہ سنتے سنتے آدمی اکتا جاتا ہے اور نصائح بے اثر ہوجاتے ہیں۔ اس بنا پر نبی اکرمؐ وعظ و نصائح کی مجالس ناغہ دے کر منعقد فرماتے تھے۔
عورتوں کے لیے مخصوص مجالس
ان مجالس کا فیض زیادہ تر مردوں تک محدود تھا اور عورتوں کو موقع کم ملتا تھا۔ اس بنا پر عورتوں نے درخواست کی کہ ہمارے لیے خاص دن مقرر فرمایا جائے۔ نبی اکرمؐ نے یہ درخواست منظور کی اور ان کے وعظ و ارشاد کے لیے ایک خاص دن مقرر ہوگیا۔ اگرچہ مسائل شرعیہ کے متعلق ہر قسم کے سوالات کی اجازت تھی اور خاتونان حرم وہ مسائل دریافت کرتی تھیں جو خاص پردہ نشینوں سے تعلق رکھتے تھے۔ تاہم جب کوئی پردہ کا واقعہ مجلس عام میں سوال کی غرض سے پیش کیا جاتا تو فرط حیا سے آپؐ کو ناگوار ہوتا۔
طریقۂ ارشاد
کبھی کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود امتحان کے طور پر حاضرین سے کوئی سوال کرتے۔ اس سے لوگوں کی جودتِ فکر اور اصابتِ رائے کا اندازہ ہوتا۔ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ کا بیان ہے کہ ایک دفعہ آپؐ نے پوچھا وہ کون سا درخت ہے جس کے پتے جھڑتے ہیں اور جو مسلمانوں سے مشابہت رکھتا ہے۔ لوگوں کا خیال جنگلی درختوں کی طرف گیا، میرے ذہن میں آیا کہ کھجور کا درخت ہوگا لیکن میں کم سِن تھا اس لیے جرأت نہ کرسکا۔ بالآخر لوگوں نے عرض کی کہ نبیؐ آپ بتائیں۔ ارشاد فرمایا ’’کھجور‘‘۔ عبداللہ بن عمرؓ کو تمام عمر حسرت رہی کہ کاش میں نے جرأت کرکے اپنا خیال ظاہر کر دیا ہوتا۔
ایک روز آپؐ مسجد میں تشریف لائے۔ صحابہؓ کے دو حلقے قائم تھے۔ ایک قرآن خوانی اور ذکر و دعا میں مشغول تھا اور دوسرے حلقے میں علمی باتیں ہو رہی تھیں۔ آپؐ نے فرمایا ’’دونوں عمل خیر کر رہے ہیں لیکن خدا نے مجھ کو صرف معلم بنا کر مبعوث کیا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر علمی حلقے میں بیٹھ گئے۔
مجالِس میں شگفتہ مزاجی
باوجود اس کے کہ ان مجالس میں صرف ہدایت، ارشاد، اخلاق اور تزکیہ نفوس کی باتیں ہوتی تھیں اور صحابہؓ نبی اکرمؐ کی خدمت میں اس طرح بیٹھتے تھے۔ کان الطیر فوق رؤسھم (جیسے چڑیاں ان کے سروں پر بیٹھی ہوں) تاہم یہ مجلسیں شگفتہ مزاجی کے اثر سے خالی نہ تھیں۔ ایک دن آپؐ نے ایک مجلس میں بیان فرمایا کہ جنت میں خدا سے ایک شخص نے کھیتی کرنے کی خواہش کی۔ خدا نے کہا کیا تمہاری خواہش پوری نہیں ہوئی ہے؟ اس نے کہا ہاں لیکن میں چاہتا ہوں کہ فوراً بوئوں اور ساتھ ہی تیار ہو جائے۔ چنانچہ اس نے بیج ڈالے، فوراً دانہ اْگا، بڑھا اور کاٹنے کے قابل ہوگیا۔ ایک بدو بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے کہا یہ سعادت صرف قریشی یا انصاری کو نصیب ہوگی جو زراعت پیشہ ہیں لیکن ہم لوگ تو کاشتکار نہیں۔ آپؐ ہنس پڑے۔
فیضِ صحبت
ایک دفعہ سیدنا ابوہریرہؓ نے عرض کی کہ ہم جب خدمتِ اقدس میں حاضر ہوتے ہیں تو دنیا ہیچ معلوم ہوتی ہے لیکن جب گھر میں بال بچوں میں بیٹھتے ہیں تو حالت بدل جاتی ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ اگر ایک سا حال رہتا تو فرشتے تمھاری زیارت کو آتے۔ ایک دفعہ سیدنا حنظلہؓ خدمتِ اقدس میں آئے اور کہا یارسول اللہ! میں منافق ہوگیا ہوں۔ میں جب خدمتِ اقدس میں حاضر ہوتا ہوں اور آپؐ دوزخ و جنت کا ذکر فرماتے ہیں تو یہ چیزیں آنکھوں کے سامنے آجاتی ہیں۔ لیکن بال بچوں میں آ کر سب بھول جاتا ہوں۔ ارشاد ہوا کہ اگر باہر نکل کر بھی وہی حالت رہتی تو فرشتے تم سے مصافحہ کرتے۔