ذمے داروں کا تعین ہونا چاہیے

350

بالآخر بیس دن صبر سے گزار کے انتظامیہ نے دھرنے والوں کو دھر لینے کا ارادہ کیا۔ انتظامیہ کا یہ ارادہ عدلیہ کے پر زور حکم پر تھا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ حکومت اور انتظامیہ کو عدلیہ اور بھی بہت کچھ حکم دیتی رہتی ہے اور کیا وہ ان احکامات پر عمل کرتے ہیں؟ انتظامیہ نے دھرنے والوں سے نمٹنے کے لیے منصوبہ بندی کمزور رکھی۔ سیدھی سی بات ہے کہ دھرنے کے شرکا کو آنسو گیس کے مرغولوں اور پانی کی توپوں کے فواروں کے بجائے مذاکرات پر کیوں نہیں لایا گیا۔
دھرنے والوں نے مذاکراتی ٹیم تو بنالی تھی جس کے ایک رکن عنایت الحق کا کہنا تھا کہ ہمارا پہلا مطالبہ وزیر کا استعفا، دوسرا سیون سی اور بی کی پہلی حالت میں بحالی، تیسرا اذان کے لاؤڈ اسپیکر چاروں طرف لگانے کی اجازت اور چوتھا آسیہ بی بی کے خلاف عدالت عظمیٰ میں کیس کو تیزی سے چلانا ہے۔ اب یہ مطالبات ایسے تو نہیں کہ جن پر عمل درآمد کے بجائے تشدد آمیز طریقوں کو ترجیح دی جاتی، جب کہ معاملے کی حساسیت بھی واضح ہے، وزیر قانون زاہد حامد پہلے تو استعفا دینے پر راضی تھے، پھر پتا نہیں حکومت نے کیوں اس مطالبے کو ماننے سے انکار کیا؟ اس سوال کا جواب دھرنے کے راہ نما خود ہی دیتے ہیں کہ حکومت کو خدشہ ہے کہ اگر وزیر کو ہٹادیا تو انہیں گستاخِ رسول سمجھا جائے گا۔ حالاں کہ ہم انہیں نااہل تو سمجھتے ہیں کہ ان کی ناک کے نیچے یہ ترمیم کردی گئی۔ لیکن ہم نے وفاقی وزیر پر گستاخ رسول کا الزام نہیں لگایا ہے۔
حکومت کے مطابق یہ معمولی سی غلطی تھی۔ الیکشن ایکٹ 2017ء میں چند ترامیم پر تنازع ہوا، یہ ترامیم احمدیہ جماعت سے متعلق تھیں دھرنے والوں کا کہنا ہے کہ ترامیم کی واپسی اہم ہے لیکن یہ بھی اہم ہے کہ ان ترامیم کے پیچھے جو ہیں ان کو بے نقاب کیا جائے۔ بات معمولی نہیں ہے، مان لینے ہی میں بہتری ہے اور تھی۔ اگرچہ وزیر قانون نے اسمبلی میں الیکشن ایکٹ میں ترمیم متعارف کرواتے ہوئے کہا کہ قادیانی گروپ، لاہوری گروپ یا کوئی بھی شخص جو ختم نبوت پر مکمل اور غیر مشروط ایمان نہیں رکھتا اس کی حیثیت وہی رہے گی جیسے کہ آئین میں ہے، یعنی وہ غیر مسلم ہوگا۔ الیکشن ایکٹ کی شق 7 سی کے تحت احمدی غیر مسلم قرار رہیں گے۔ ترمیم کی منظوری کے دوران وزیر قانون اپنے حج اور عمروں کا حوالہ دیتے رہے، اپنے اور اپنے خاندان کے سچے عاشق رسول ہونے کا دعویٰ بھی دہرایا۔ لیکن معاملہ وہی ہے کہ انتخابی اصلاحات بل کی منظوری کے دوران احمدی عقائد کے حوالے سے سیون بی اور سیون سی شقیں خارج کیسے ہوئیں اور کس نے کیں۔ ٹھیک ہے کہ ترامیم واپس لے لی گئیں اب اگر وزیر قانون سے استعفا لے لیا جاتا تو بھی کوئی برائی نہیں تھی جو بعد میں لینا ہی پڑا اور اس راستے پر آگے بڑھنے سے پہلے سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا چاہیے تھا کہ اگر ایک طرف شرپسند ہیں تو دوسری طرف گہری کھائی۔۔۔!!
وزیراعظم نے اسلام آباد میں فوج کو حالات کو قابو کرنے کے لیے بلالیا۔ 22 نومبر تک دھرنے کے راہ نما خادم حسین رضوی انتہائی یقین کے ساتھ کہہ رہے تھے کہ پاکستانی فوج انہیں ہٹانے کے لیے نہیں آئے گی کیوں کہ وہ انہی کا موقف مضبوط کرنے کے لیے بیٹھے ہیں۔ لہٰذا وہ کیسے آئے گی؟؟؟
ان کا خیال درست نہیں تھا۔ فوج انہیں ہٹانے کے لیے آئی جس کے بعد چھ نکاتی معاہدہ کرلیا گیا ہے جس میں نکات تقریباً وہی ہیں یعنی زاہد حامد کا استعفا، تیس دن کے اندر راجا ظفر الحق کی رپورٹ منظر عام پر لانے اور ذمے دار اشخاص کے خلاف کارروائی، گرفتار کیے گئے لوگوں کی رہائی اور ان کے مقدمات ختم کرنا، انکوائری بورڈ تشکیل دے کر 25 نومبر کے حکومتی ایکشن کے ذمے داروں کے خلاف کارروائی، دھرنے کے دوران ہونے والے نقصان کا ازالہ اور حکومت پنجاب سے متعلقہ جن نکات پر اتفاق ہوچکا ہے ان پر عمل درآمد کیا جائے۔ اب ضامن اور ثالث کی ضمانت اور ثالثی پر سوال اٹھائے جارہے ہیں لیکن حالات کی بہتری پر ساری قوم نے سکھ کا سانس لیا، معاملے کو بگاڑنے میں حکومت کی نااہلی سامنے آئی، عین وقت پر جماعت اسلامی کے راہ نما طارق اللہ نے 5 نکات پر مشتمل ترمیم پیش کی تھی لیکن سارے حکومتی اراکین منہ گھنگنیاں دے کر بیٹھے رہے کوئی توجہ نہ دی، توہین رسالت پر ان کا دل نہ لرزا، بتانے اور سمجھانے پر توجہ نہ دی، یقیناًخرابی یوں ہی بڑھی۔ سمجھنے اور سلجھانے کے بجائے ترمیم کے ذمے داروں کو بچانا مقصود رہا۔ اب بھی اگر نبی کی حرمت اور رسالت کی عظمت کا احساس دلوں میں ہے تو ذمے داروں کا تعین ہونا چاہیے۔