بیت المقدس ہی اسرائیل کا دارالحکومت کیوں؟ 

564

مسعود انور

ہیکل سلیمانی کو یہودی First Temple بھی کہتے ہیں۔ ہیکلِ سلیمانی کی تباہی کے بعد اگلے 70 برس تک ہیکلِ سلیمانی کا صفحہ ہستی پر کوئی وجود نہ تھا۔ بنی اسرائیل کی توبہ اور اصلاح حال کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے انہیں دوبارہ آزادی کی نعمت عطا کی اور فارس کے بادشاہ سائرس نے بابل کو فتح کرنے کے بعد اسیری میں آئے ہوئے بنی اسرائیل کو واپس یروشلم جانے اور وہاں ہیکل کو دوبارہ تعمیر کرنے کی اجازت دے دی۔ اِس غرض کے لیے انہیں مناسب مدد فراہم کرنے کا وعدہ بھی کیا۔ ہیکل کی دوسری تعمیر 537 قبل مسیح میں شروع ہوئی لیکن تعمیر کا کام سر انجام دینے والوں کو اپنے ہم وطن دشمنوں کی اتنی زیادہ مخالفت کا سامنا کرنا پڑا کہ تعمیراتی کام جلد ہی عملی طور پر بند ہو گیا اور دارا اوّل کے دورِ حکومت تک مداخلت ہی کا شکار رہا۔ ہیکل سلیمانی کی تعمیر نوکا کام 520 قبل مسیح میں پایہ تکمیل کو پہنچا۔ بیت المقدس کے دور بربادی میں سیدنا عزیر علیہ السلام کا وہاں سے گزر ہوا، انہوں نے اس شہر کو ویران پایا تو تعجب ظاہر کیا کہ کیا یہ شہر پھر کبھی آباد ہوگا؟ اس پر اللہ نے انہیں گہری نیند سلا دیا اور جب وہ سو سال بعد اٹھائے گئے تو یہ دیکھ کر حیران ہوئے کہ بیت المقدس پھر آباد اور پر رونق شہر بن چکا تھا۔ سیدنا عزیر علیہ السلام کو یہودی اللہ کا بیٹا کہتے ہیں۔
اس کے بعد بھی ہیکل سلیمانی دشمنان دین کی دست برد کا شکار رہا۔ انطیوکس چہارم نے 168 قبل مسیح میں ہیکل کے صحن میں جیوپیٹر اولمپیئس کے نام سے منسوب چبوترہ تعمیر کرکے اور اِس پر خنزیروں کی قربانیاں پیش کرکے ہیکل کے تقدس کو پامال کیا۔ اُس نے اِس مقدس مقام سے متبرک فرنیچر چرا لیا اور ہیکل کے تمام خزانے وہاں سے ہٹا دیے۔ 165 قبل مسیح میں ہیکل کی دوبارہ مرمت کرا دی گئی۔ اس میں نئے سرے سے فرنیچر فراہم کیا گیا اور اسے دوبارہ قربانی وعبادت کے لیے وقف کر دیا گیا۔ پومپی نے 63 قبل مسیح میں یروشلم پر قبضہ کیا تو ہیکل کو کوئی نقصان نہ پہنچایا گیا، لیکن بعد میں 54 قبل مسیح میں کریسس نے ہیکل کو دوبارہ سے شدید نقصان پہنچایا۔
جب ہیرودِ اعظم نے تباہ حال ہیکل کی جگہ ایک نئے ہیکل کی تعمیر نو کے ارادے کا اظہار کیا تو یہودیوں کو اس بات کا خوف محسوس ہوا کہ وہ پرانا ہیکل توڑ پھوڑ ڈالے گا اور پھر اس کی تعمیرنو نہیں کرا سکے گا۔ اس صورت حال کے پیش نظر ہیرود نے تعمیر نو کا ایسا طریقہ اختیار کیا جس کے ذریعے سے پرانے ہیکل کے صرف وہی حصے گرائے جاتے تھے جس کی تعمیر پر عمل درآمد شروع ہو جاتا تھا۔ تعمیر کے مختلف مراحل کے دوران میں یوں لگتا تھا کہ وہ پرانی تعمیرات کی مرمت کے علاوہ کچھ نہیں کر رہا، جب کہ حقیقت یہ تھی کہ مراسمِ قربانی وعبادت میں کسی طرح کا خلل واقع ہوئے بغیر عمارات کا مکمل طور پر ایک نیا ڈھانچا تعمیر ہو رہا تھا۔ ابتدائی مرحلے میں اُس نے اصل ہیکل کو دوبارہ تعمیر کیا۔ یہ کام 19 یا 20قبل مسیح میں شروع ہوا اور 18ماہ تک جاری رہا۔ اُس نے تمام تعمیراتی سامان کو ہیکل کے علاقے میں لائے جانے سے پہلے ہی بالکل سائز کے مطابق تیار کروایا اور ہیکل کے اندرونی ڈھانچے پر کام کے لیے صرف کاہنوں ہی کو مقرر کیا۔ جب یہ کام پایہ تکمیل تک پہنچ گیا تو اگلے آٹھ برسوں میں اکثر بیرونی عمارتیں بشمول خانقاہ کے حجرات مکمل کیے گئے، لیکن تزئین وآرائش کا کام جاری رہا سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے دورِ نبوت کے دوران تک تعمیراتی سرگرمیاں جاری تھیں۔ اسے یہودی second temple یا ہیکل ثانی کے نام سے پکارتے ہیں۔ یروشلم پر دوسری تباہی رومیوں کے دور میں نازل ہوئی۔ 66 عیسوی میں یہودیوں نے رومی حکومت کے خلاف بغاوت کر دی جس کو کچلنے کے لیے رومی جنرل ٹائٹس (Titus) نے 70 عیسوی میں یروشلم پر حملہ کر کے یہود کا قتل عام کیا اور ہیکل کو بالکل تباہ وبرباد کر دیا۔ زندہ بچ جانے والے یہودیوں کو جلا وطن کر دیا گیا اور یروشلم میں ان کا داخلہ ممنوع قرار دیا گیا، تاہم بعد کے ادوار میں یہ پابندی نرم کر کے یہودیوں کو مخصوص مواقع پر یروشلم میں آنے اور ہیکل کے کھنڈرات کی زیارت کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ ہیکل کی اس دوسری تباہی میں اس کی صرف مغربی دیوار محفوظ رہ گئی تھی جو رفتہ رفتہ یہودیوں کا مقام اجتماع اور ان کی گریہ وزاری کا مرکز بن گئی اور اس بنا پر ’’دیوار گریہ‘‘ (Wailing Wall) کہلانے لگی۔ 136 عیسوی میں رومی شہنشاہ ہیڈرین نے یروشلم کو دوبارہ آباد کر کے اس کا نام ‘Aelia Capitolina’ رکھا اور ہیکل کی جگہ رومی دیوتا ‘Jupiter’ کے نام پر ایک عالی شان معبد تعمیر کرا دیا۔ چوتھی صدی عیسوی میں مسیحیت کے روم کا سرکاری مذہب بن جانے کے بعد 336 عیسوی میں قسطنطین اعظم نے اس معبد کی جگہ کلیسا تعمیر کرا یا اور اسے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ جی اٹھنے کے نام سے منسوب کیا۔
638 عیسوی میں مسلمانوں نے یروشلم کو فتح کیا تو اس موقع پرسیدنا عمر بن خطابؓ مسجد اقصیٰ آئے۔ اس وقت ہیکل کے پتھر (صخرہ بیت المقدس) کے اوپر کوڑا کرکٹ پڑا ہوا تھا۔ سیدنا عمرنے صحابہ کے ساتھ مل کر اس کو صاف کیا اور احاطہ ہیکل کے اندر جنوبی جانب میں نماز پڑھنے کے لیے ایک جگہ مخصوص کر دی۔ بعد میں اس جگہ پر لکڑی کی ایک مستطیل مسجد تعمیر کی گئی۔ 688 عیسوی میں اموی خلیفہ عبدالملک بن مروان نے صخرہ بیت المقدس کے اوپر ایک شان دار گنبد تعمیر کرا دیا جو ’قبۃُالصخرہ‘ یا Dome of Rock کے نام سے معروف ہے۔ عبدالملک بن مروان ہی نے لکڑی کی مذکورہ سادہ مسجد کی تعمیر نو کر کے اس کے رقبے کو مزید وسیع کر دیا۔
معاملات کو سمجھنے کے لیے مسجد اقصیٰ کی یہ مختصر تاریخ ہے۔ مگر اس سب کا بیت المقدس کو دارالحکومت قرار دینے سے کیا تعلق ہے۔ یہ جگہ عملی طور پر اسرائیل کے قبضے میں ہے اور یہودی دیوار گریہ تک بھی پہنچ رکھتے ہیں تو پھر یہ سب معاملات کیوں۔ اس پر گفتگو آئندہ کالم میں ان شاء اللہ تعالیٰ۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔